بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں کسی قسم کی ملازمت کرنا


سوال

 میں عسکری بینک میں کام کرتا ہوں میرا کام برانچز کے اندر سہولیات کی کمی کا جائزہ لے کر برانچ کو آگاہ کرتا ہوں اور ساتھ ہی کسٹمرز سے برانچ کا فیڈ بیک لیتا ہوں۔اس کے  علاوہ کسٹمر بن کر برانچ کو فون کر کے مختلف مصنوعات کے بارے میں معلومات لے کر ان کی معلومات کا اندازہ لگاتا ہوں۔ میرا بنک کے ڈپازٹ کو بڑھانے ،لانے یا لکھنے سے کوئی واسطہ نہیں ۔  مجھے اپنی آمدنی  کے بارے میں حلال یا حرام ہونے کی تصدیق کرنی ہے۔ اگر چہ میں مسلسل بنک سے باہر نوکری کی تلاش میں بھی ہوں۔

جواب

 بینک  اپنے ملازمین کو تنخواہ سودی کمائی سے ادا کرتا ہے، نیز بینک کی ملازمت میں سودی معاملات میں (کسی نہ کسی درجہ میں ) تعاون ہے؛ اس لیے بینک میں کسی بھی قسم کی ملازمت  حلال نہیں۔(اگرچہ  اس  ملازمت  میں سودی معاملات میں  براہِ راست شرکت  نہ بھی ہو، صرف بینک کی کارکردگی کی  بہتری اور  اس کے مختلف  امور  کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو  ۔)

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الربا، و موکله، و کاتبه، و شاهدیه، و قال: هم سواء."

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

 اس لیے  اگر کوئی شخص بینک میں ملازم ہو  اور فی الحال گزران کا ذریعہ نہ ہو تو اس کو  جائز  اور  حلال ذریعہ معاش تلاش کرنے  کی  سنجیدہ کوشش  فوری طور پر شروع کردینا، اور جیسے ہی حلال ذریعہ معاش مل جائے بینک کی ملازمت فوراً چھوڑ دے اور اس دوران استغفار بھی کرتا رہے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں