بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بنک میں اکاؤنٹ کھلوانا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

سودی بنک میں اکاونٹ کھلوانا جائز ہے یا ناجائز؟ جب کہ آپ کا مقصد صرف اور صرف اپنی رقم کی حفاظت ہو اور اس پر سود لینے کا ارادہ نہ ہو ۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مال کی حفاظت کی اگر کوئی معتمد صورت نہ ہو تو بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھول کر اس میں حفاظت کی غرض سے پیسے  رکھنے کی گنجائش ہے، البتہ اگر کوئی متبادل صورت ہو تو پھر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی رقم رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ بینک کے سودی نظام کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ ہو۔

الأشباہ ولنظائر میں ہے:

"الأولى: الضرورات تبيح المحظورات".

(الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص:73، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاً:

"المشقة ‌تجلب التيسيروالأصل فيها قوله تعالى: {يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر} وقوله تعالى: {وما جعل عليكم في الدين من حرج}".

(الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص:64، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں