بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں ملازمت کرنے کاحکم


سوال

  بینک میں بطور انجینئر کام کرنا حلال ہے یا حرام ؟ میں بطور مکینکل انجنئیر  نقشہ جات ،ا ئیر کنڈیشن اور مشینری مرمت کی نگہبانی کرتا ہوں جو بینک سے منسلک ہے ۔

جواب

قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سود کی حرمت اور مذمت بڑی سختی سے بیان کی گئ ہے،لہذا قرآن وحدیث کی رو سے سود لینا،دینا،سودی معاملہ لکھنا اور اس میں گواہ بننا اور تعاون کرنا سب ناجائزاور حرام ہے۔مروجہ تمام بینکوں کامدار سودی نظام پر ہی ہےاور وہ اپنے ملازمین کوتنخواہ بھی سودکے پیسوں سے دیتے ہیں ۔

لہذا بینک میں بطور انجنئیرکے کام کرنا یا کسی بھی قسم کی نوکری کرناجائزنہیں ہے،اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ "[البقرة:278، 279]

ترجمہ:اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔(از بیان القرآن)

" وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ " (المائدة:2 )

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

 ’’عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».‘‘

(باب لعن آكل الربا ومؤكله،1219/3،ط،بیروت)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔

مرقاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء)

  (عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا» ) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع كما قال - تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما} [النساء: 10] (ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم، قال الخطابي: سوى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم كما كانا شريكين في الفعل، وإن كان أحدهما مغتبطا بفعله لم يستفضله من البيع، والآخر منهضما لما يلحقه من النقص، ولله عز وجل حدود فلا تتجاوز وقت الوجود من الربح والعدم وعند العسر واليسر، والضرورة لا تلحقه بوجه في أن يوكله الربا، لأنه قد يجد السبيل إلى أن يتوصل إلى حاجة بوجه من وجوه المعاملة والمبايعة ونحوها قال الطيبي رحمه الله: لعل هذا الاضطرار يلحق بموكل فينبغي أن يحترز عن صريح الربا فيثبت بوجه من وجوه المبايعة لقوله - تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة: 275] لكن مع وجل وخوف شديد عسى الله أن يتجاوز عنه ولا كذلك الآكل (وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره."

(باب الربا ،1916/5،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں