بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ذریعہ تنخواہ وصول کرنا


سوال

سوال یہ ہے کہ بینک جو بھی ہو   کاروبار کے لیے ہے  اورکاروبار پیسوں کا ہے جو ہر کسی کو پتہ ہے کہ یہ سود کا کاروبار ہے اب حکومت نے عالمی کاروبار کی وجہ سے یہ سسٹم چلا رکھا ہے اب اس میں ملازمین کو مجبور کیا ہے اکاؤنٹ کھولنے کا ورنہ تنخواہ نہیں  مل سکتی یہاں تک تو چلتا ہے مجبوری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ نمازی اور حلال روزی کمانے والا اپنا پیسہ بینک میں رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ بینک میں پیسہ پڑا ہو تو کچھ مدت کے بعد بینک فائدہ بھی سود کی شکل میں ڈال دیتا ہے کیونکہ وہ سود لیتا بھی ہے اور دیتا بھی آپ کے پوچھنے کے بغیر تو جو بندہ حلال پیسے بینک میں رکھتا ہے تو اس حلال پیسوں میں اگر بینک اپنی طرف سے فائدہ یعنی سود ڈالتا ہے تو کیا وہ جو اصل رقم۔۔ حلال پیسے تھے وہ سود کی وجہ سے حرام نہیں  ہوئے ایک عالم سے سوال کیا کسی نے کہ میں جس شخص کے گھر میں ٹیوشن پڑھاتا ہوں وہ شخص بینک میں ملازم ہے کیا میرے لیے ٹیوشن فیس حلال ہے یا حرام تو اس عالم نے کہا نہیں یہ آپ کے لیے حرام ہے کیوں کہ بینک کا ٹوٹل کاروبار سود ہے جو ملازمین کو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی اسی سود سے ملتی ہے اور آپ کو وہ اسی تنخواہ سے اگر فیس دیتا ہے تو حرام ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بینک  ایک سودی ادارہ ہے جس طرح سود لینا اور استعمال کرنا ناجائز ہے،  اپنی رضامندی اور اختیار سے سود کا معاہدہ کرنا بھی ناجائز ہے۔  لہذا کسی بھی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے میں چوں کہ سودی معاہدہ ہوتا ہےاور اس میں جمع شدہ رقم پر بینک کی طرف سے نفع کے نام سے سود ملتا ہے جو کہ قرض پر نفع ملنے کی وجہ سے حرام ہے ؛ لہذا سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی جائز نہیں ہے، شدید مجبوری ہو تو کرنٹ اکاونٹ کھلوانے کی شرعاً اجازت ہےشدید مجبوری مثلاً:رقم کی حفاظت مقصد ہو یا تنخواہ کے لیے اکاونٹ کھلوانے کی مجبوری ہو ؛ اس لیے کہ کرنٹ اکاونٹ  ہولڈر ، بینک کے ساتھ کوئی سودی معاہدہ نہیں کرتا، اور اسے یہ اختیار ہوتاہے کہ وہ جب چاہے اور جتنی چاہے اپنی رقم بینک سے نکلوالے گا، اور بینک اس کا پابند ہوتا ہے کہ اس کے مطالبہ پر رقم ادا کرے، اور اکاؤنٹ ہولڈر اس بات کا پابند نہیں ہوتا کہ وہ رقم نکلوانے سے پہلے بینک کو پیشگی اطلاع دے، اور اس اکاؤنٹ پر بینک کوئی نفع یا سود بھی نہیں دیتا، بلکہ اکاؤنٹ ہولڈر حفاظت وغیرہ  کی غرض سے اس اکاؤنٹ میں رقم رکھواتے ہیں۔ نیز  بینک اس اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم کا ایک حصہ اپنے پاس محفوظ بھی رکھتے ہیں؛ تاکہ اکاؤنٹ ہولڈر جب بھی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے  تو اس کی ادائیگی کی جاسکے، اس ساری صورتِ حال میں اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے اس کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے کی گنجائش ہے۔ اور جو بینک اس سے سودی کام کرے گا اس کا گناہ متعلقہ ذمہ داران کو ہوگا، نہ کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو۔اور  اگر لاعلمی میں سیونگ اکاؤنٹ کھول لیا ہو یا اپنے اختیار کے بغیر ادارے نے کھول دیا ہو جیسا کہ آج کل ملازمین کو تنخواہ بینک کے ذریعے ملتی ہے تو اگر اس میں سیونگ اکاونٹ کھولا گیا تو اولاً اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیا جائے اور  اصل رقم پر اضافہ وصول نہ کیا جائے۔ اور اگر فی الحال کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہو تو سودی/ منافع کی رقم وصول ہی نہ کی جائے اور اگر وصول کرلیا ہے تو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء پر صدقہ کرلیا جائے ۔

اگر کوئی شخص کسی بینک کے ملازم کے گھر اُس کے بچے کو ٹیوشن پڑھاتا ہے ،تو اس آدمی کے لیے اس آدمی سے فیس وصول کرنا جائز ہے ،البتہ اگر وہ آدمی یہ کہہ کر فیس دیتا ہے  کہ یہ بینک کی رقم ہے تو اس سے وہ رقم نہ لے بلکہ یہ کہے کہ حلال رقم سے فیس ادا کریں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وإن كانا مما لايتعين فعلى أربعة أوجه: فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (وإن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) ونقدها (أو أطلق) ولم يشر (ونقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل: (وبه يفتى) والمختار أنه لايحلّ مطلقًا، كذا في الملتقى. و لو بعد الضمان هو الصحيح، كما في فتاوى النوازل. و اختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام، و هذا كله على قولهما."

(کتاب الغصب ،ج:6،ص؛189،سعید)

درر الحکام میں ہے :

"لأن الثابت بالضرورة ‌يتقدر ‌بقدرها".

(باب الاعتکاف،ج:1،ص:213،داراحیاء الکتب العربیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404100060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں