بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنا


سوال

1- میں ٹرانسپورٹ کا کام کرتا ہوں ،مجھے آگے 2nd ہینڈگاڑی لینی ہے ،مزدا لوڈر، بینک  ہے "خوشحالی بینک "، وہ مجھے آفر دے رہے ہیں کہ گاڑی کی 30%پیسےمیں نے دینے ہیں اور 70%بینک دے گا ،گاڑی دونوں کے نام ہو گی ،جب میں قسطوں میں ان کے پیسے دے دوں گا تو  گاڑی میرے نام ہو گی۔

2- اگر 1نمبر جائز ہے تو کیا میں یہ کر سکتا ہوں کہ اپنی گاڑی ان کے نام کروا دوں اور ان سے پیسے لے کر اور گاڑی لے لوں؟

جواب

مروجہ نظام کے تحت بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے،   تاحال  ملک کے  کسی بھی  بینک کا طریقہ ( خواہ روایتی بینک ہو یا مروجہ اسلامی بینک ہو)  شریعت کے اصول کے مطابق نہیں ہے، لہذا کسی بھی قسم کے بینک سے تمویلی معاملات جائز نہیں ہیں۔ اور سوال میں مذکورہ طریقے  (خواہ لیزنگ کے عنوان سے ہو یا اجارہ یا مرابحہ مؤجلہ یا شرکتِ متناقصہ کے عنوان ) سے بھی بینک سے گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، و مؤكله، و كاتبه، و شاهديه»، و قال: «هم سواء»."

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں