کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے بارے میں کہ کیا بینک چلانےکیلیےکوئی مکان کرایے پردیناجائزہے ۔
بینک ایک سودی ادارہ ہے جہاں سودی لین دین ہوتاہے جو گناہِ کبیرہ ہے، ایسے سودی ادارےکواپنی جائیداد ،مکان وغیرہ کرایہ پردینا گناہ کے کام میں معاونت ہے جوکہ شرعاً ناجائزہے، اورجوکرایہ بینک ادا کرے گا،ظاہرہے وہ اپنی سودی آمدنی سے ادا کرے گاجو کہ جائز نہیں۔الغرض کسی بھی قسم کے بینک کو اپنی کوئی جگہ کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ۔"(سورۃ المائدۃ آیت نمبر 2)
"ترجمہ از بیان القرآن:اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ سخت سزا دینے والے ہیں۔"
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے میں ہے:
"(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر) لا عصرها لقيام المعصية بعينه.
(و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصيةوبه قالت الثلاثة زيلعي.
(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل (قوله وحمل خمر ذمي) قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه - عليه الصلاة والسلام - «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره."
(کتاب الحظر والاباحۃ،ج6،ص392،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100214
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن