بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی طرف سے ملنے والے کیش بیک کا حکم


سوال

 میں ایک ڈاکٹر ہوں،  اور آجکل جاب کے سلسلے میں سعودی عرب میں ہوں، یہاں تقریباً ہر چیز مثلاً روزمرہ خریداری، میڈیکل، کاروبار، تنخواہ وغیرہ سب( online) ہے، اسی لئے میں نے بھی تنخواہ وغیرہ کیلئے الراجعی بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا ہے،  جس سے میں اپنے سارے خرچے مثلاً خریداری یا پاکستان پیسے بھیجنا وغیرہ سب کرتا ہوں، اسی طرح میں نے بینک سے ایک pre-paid online debit card بنوایا ہے،  جس میں میں پہلے سے کچھ پیسے رکھتا ہوں اور پھر اس کے ذریعے روزمرہ کی خریداری جیسے کہ سودا وغیرہ خریدتا ہوں،  اب یہاں  مسئلے ہیں جن کی آپ سے شرعی حیثیت جاننا چاہتا ہوں:

1:کچھ دن پہلے میں نے اپنا main اکاؤنٹ دیکھا تو اس میں کچھ ریال زیادہ تھے، تفصیل سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ بینک کی طرف سے "کیش بیک" تھے،  یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے سوائے پاکستان یا سعودیہ میں کچھ لوگوں کو پیسے بھیجنے کے علاوہ اور کوئی کام مثلاً کوئی شاپنگ وغیرہ نہیں کی،  آپ سے ان ریال/کیش بیک کی شرعی حیثیت مطلوب ہے۔ 

2:اسی طرح جو میرا دوسرا آن لائن ڈیبٹ کارڈ ہے، وہ بھی کسی استعمال پر 0.06٪ کیش بیک دیتا ہے چاہے میں چاہوں یا نہ چاہوں، یعنی اگر میں کہیں بھی اس کارڈ کے ذریعے خریداری کرونگا تو ہر ایک ریال پر میرے کارڈ میں 0.06 ریال واپس آ جاتے ہیں، اس چیز کی شرعی حیثیت آپ سے مطلوب ہے.

3:اگر یہ دونوں حرام ہیں تو ان کو میں کہاں استعمال کر سکتا ہوں کیونکہ یہ بینک کی پالیسی ہے،  اور ان کو میں بند نہیں کروا سکتا۔

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں بینک کے ذریعےترسیل کی جانے والی رقم شرعاً قرض کے حکم میں ہے   اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا مشروط نفع لینا جائز نہیں ہے ؛ اس لیے اس قرض کے بدلےبینک کا اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کو رقم کی منتقلی وغیرہ  پرکیش بیک کی صورت میں نفع دینا شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز  اور حرام ہے۔

2: اگر آن لائن خریداری کی صورت میں کیش بیک بائع(بینک کے علاوہ) کی جانب سے ہو تو شرعا وہ رعایت اور ڈسکاؤنٹ کے حکم میں ہے، جو کہ بائع کی جانب سے تبرع ہے،اس لیےاس کا استعمال کرنا جائز ہے،لیکن اگر معلوم نہ ہو کہ یہ کیش بیک بینک کی جانب سے ہے یا بائع کی جانب سے تو احتیاط ہی بہتر ہے۔

3: بینک کی طرف سے ملنے والی کیش بیک سودی رقم ہونے کی وجہ سے حرام ہے، جب اس رقم کو بینک کے حوالے کرنا مشکل ہے تو اس کو بلانیت ثواب مستحقین زکوۃ کو دی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جا بر  قال: لعن رسول اللّٰہ  آکلَ الربوا ومؤکلہٗ وکاتبہٗ وشاہدیہ وقال: هم سواء".

(صحیح مسلم، کتاب المساقات، باب آکل الربوا ومؤکلہ،ج:3،ص:1219، دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:" حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

فتاویٰ شامی (الدر المختار و رد المحتار) میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه".

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:162، ط: سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع   میں ہے:

"وأما الذی یرجع إلی نفس القرض فهو أن لایکون فیه جر منفعة، فإن کان لم یجز ، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلّة علی أن یرد علیه صِحاحا أو أقرضه وشرط شرطاً له فیه منفعة لما روی عن رسول اللّٰہ  أنه نهي عن قرض جرّ نفعاً".

(کتاب القرض، فصل فی شرائط رکن القرض:ج:7،ص:395،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں