بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی طرف سے بجلی بل بھرنے پر ملنے والے ڈسکاونٹ کا حکم


سوال

الفا(اسلامک)بینک کے ذریعے سے بجلی بل بھرنے پر 20 فیصد ڈسکاؤنٹ دیا گیا ہے کیا استعمال پر سود یا ناجائز کا فتوی ہے..؟ اور کیا ہم استعمال کرسکتے ہیں؟ استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں بینک  کے ذریعہ بجلی کا بل بھرنے پر جو ڈسکاونٹ دیا جاتا ہے ،وہ عام طور پر بینک اپنے اکاونٹ ہولڈرز کو ان کے اکاونٹ میں جمع شدہ رقوم کے عوض دیتا ہے جو قرض پر نفع لینے  کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے ،اور اگر صرف اکاونٹ ہولڈرز کو نہیں بلکہ ہر اس شخص کو بینک مذکورہ ڈسکاونٹ دیتا ہے جو بینک میں  بل جمع کرائے گا تب بھی اس کا لینا شرعا جائز نہیں ؛اس لیے کہ بینک کی آمدنی ناجائز اور حرام ہے اور حرام آمدنی سے ملنے والا ہدیہ کا استعمال شرعا جائز نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج:۵،ص:۱۶۶،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌أهدى ‌إلى ‌رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع۔۔۔۔۔۔۔آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الثانی عشر فی الہدایا،ج:۵،ص:۳۴۳،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں