آدمی نیشنل بینک میں ابتداءً چپراسی کی حیثیت سے بھرتی ہواپھرکلرک بنااورپھرآخرمیں آفیسر بنا، بقول اس کےکہ میراسودی لین دین سے کوئی واسطہ نہیں تھا، اب آخرمیں ریٹائرہونے پراس کوفنڈملاجس سے میں نےایک مکان خریدااوراب میں نے اس مکان کوفروخت کردیاہے ، میں ان پیسوں سے مسجدکی تعمیرمیں حصہ لے سکتاہوں یانہیں؟
واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز اور حرام ہے، اور بینک ملازم سود لینے، دینے یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں بینک کے کسی بھی شعبہ میں ملازمت کرنا( چپراسی بننا، کلرک یا آفیسربننا ) جائز نہیں ہے اور اس ملازمت سے ملنے والی تنخواہ بھی حرام ہے،لہذا مذکورہ سودی رقم سے جو ضرورت سے زائد ہے وہ ثواب کی نیت کے بغیر غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا واجب ہوگا، مذکورہ رقم مسجد کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہ ہوگا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔
(سورة المائدة الایة:۲)
ترجمہ:اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔
حاشیۃ ردالمحتارمیں ہے :
والحاصل أنه إنعلم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه.
(حاشیۃ ردالمحتار ۵/ ۹۹ ط : سعید)
البحرالرائق میں ہے :
ويردونه على أربابه إن عرفوهم وإلا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد ۔
(البحرالرائقفصل فی البیع۸ / ۲۲۹ ط : دارالمعرفۃ بیروت)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100576
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن