بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بینک کی پینشن پر گزارہ کرنا ناجائز ہے


سوال

ایک صاحب نے ساری عمر نیشنل بنک آف پاکستان میں نوکری کی پھر ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے تو ریٹائر ہوگئے،  گورنمنٹ کا بینک ہونے کی وجہ سے پنشن بھی جاری ہوگئی، اب ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد یہ خیال آنا شروع ہوا کہ میں تو سود کی نوکری کرتا رہا، اب کوئی دوسرا آمدنی کا ذریعہ بھی نہیں، عمر بھی ایسی نہیں کہ کوئی متبادل روزگار کے ذرائع اختیار کئے جاسکیں، تو ایسی صورت حال میں کیا وه صاحب گزر اوقات کے لیے پنشن استعمال کر سکتے ہیں؟

وہ صاحب الحمدللہ پانچ وقت کےنمازی ہیں، تہجد بھی اکثر پڑھتے ہیں، حج و عمرہ بھی کر چکے ہیں، اب یہ بات انہیں پریشان کر رہی ہے کہ وہ بنک میں نوکری کرتے رہے، جس کی آمد کا بڑا انحصار سودی کاروبار پر ہےاب دو سوال ہیں :

1- جو وہ نوکری کر چکے ہیں اور بنک سے ملنے والی تنخواہ پہ گزارہ کرتے رہے اس کا سدِباب کس طرح کریں؟

2- اب جو پنشن پہ گزارہ کر رہے ہیں جو کہ گورنمنٹ اپنے ہر عہدے دار کو جاری کرتی ہے، چاہے وہ بنک میں ہو یا کسی اور سرکاری ادارے میں، تو ایسی صورت میں کیا اس ملنے والی پنشن پہ گزارہ کیا جا سکتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ سرکاری ملازمین جس شعبہ سے وابستہ ہوتے ہیں، انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات کے تناسب سے سرکار کی جانب سے پنشن جاری کی جاتی ہے، جو اگرچہ تحفۃ ہوتی ہے، تاہم متعلقہ محکمہ میں خدمات کے سبب اس محکمہ کی آمدن سے پنشن جاری کی جاتی ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں بینک میں خدمات کی وجہ سے مذکورہ صاحب کو جو پنشن مل رہی ہے وہ جائز نہیں ہوگی۔

اب تک جو حرام رقم استعمال کی ہے اس پر خوب وتوبہ استغفار کریں، اور اگر حرام رقم موجود ہے، تو  ثواب کی نیت کے بغیر اسے  صدقہ کرنا ضروری  ہوگا، تاہم اگر اس وقت آپ کے پاس حلال رقم کا بالکل بندوبست نہیں ہے،  اور  حلال آمدنی کی کوئی اور سبیل  بھی نہیں ہے، مجبوری کی حالت میں بقدرِ ضرورت اس کو  رکھ کر استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی اور ساتھ خوب توبہ واستغفار بھی کرتے رہیں۔ 

جواہر الفتاوی میں ہے:

"مگر یہ جس کے پاس حلال آمدنی کا کوئی انتظام نہیں ہے، آدمی اس عمر میں پہنچ گیا ہے کہ کسب وکمائی کے لائق نہیں رہا۔ یا بیماری کی وجہ سے معذور ہوگیا ہے، اور تمام حرام مال کو صدقہ کرنے سے اس کے لیے فاقہ کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، تو اس کے لیے اضطراری کیفیت کی بناء پر اتنی بات کی گنجائش ہوگی کہ ناجائز آمدنی میں سے اتنا مال اپنے پاس رکھے کہ فاقہ سے بچ جائے، احتیاجی سے بچ جائے مثلاً کسی کے پاس ناجائز اور حرام آمدنی سے بنائے ہوئے دو مکان ہیں،ایک میں رہائش پذیر ہے، دوسرا مکان کرایہ پر دیا ہوا ہے،  اور کچھ پیسے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، کاروبار کی آمدنی سے اس کے اخرجات پورے ہوجاتے ہیں، زائد مکان کا کرایہ فاضل بچ جاتا ہے، تو  اس آدمی کے لیے ضروری ہے کہ رہائش سے زائد مکان بلانیت ثواب مستحق آدمی کو صدقہ کردے پھر ناجائز آمدنی سے جو کاروبار شروع کیا ہے اس سے جو منافع آتا ہے اگر وہ ضرورت سے زائد ہے تو کاروبار کو کم کردے۔"

(جو مال حرام بالعوض اور تبادلہ میں حاصل ہوا اس کا حکم، ج:3، ص:88، ط:اسلامی کتب خانہ)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"الضرورات تبيح المحظورات،

ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع الأداء من الدين بغير إذنه ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله ... الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها ... ومن فروعه: المضطر لا يأكل من الميتة إلا قدر سد الرمق والطعام في دار الحرب يؤخذ على سبيل الحاجة؛ لأنه إنما أبيح للضرورة."

(الفن الأول القواعد الكلية، القاعدة الرابعة، ص:73، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں