بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی نوکری تنخواہ کاحکم


سوال

 ایک شخص بینک میں ملازمت کرتا ہے اور وہ لوگوں کے انشورنس بھی کرتا ہے اور لوگوں کو اس کے بارے میں دعوت بھی دیتا ہے اور اس کے علاوہ بینک کے دیگر کاموں کو بھی انجام دیتا ہےکیا اس شخص کی ملازمت کرنے کی تنخواہ درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ موجودہ دور میں بینک  کی ملازمت ناجائز ہے، اور اس ملازمت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدن بھی ناجائز ہے، اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں: 

(1) بینک کے اکثر معاملات  سودی لین دین اور غیر شرعی عقود پر مشتمل ہوتے ہیں، سودی لین دین کرنے والوں اور اس موقع پر گواہوں اور لکھت پڑھت کا حصہ بننے والوں پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے، نیز قرآنِ مجید میں گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کے تعاون سے روکا گیا ہے، اور تعاون کی صورت میں عذاب سے ڈرایا گیا ہے، جب کہ بینک  میں ملازمت کرنے سے سودی اور ناجائز  معاملات و  غیر شرعی عقود   میں تعاون کرنا ، اس کی لکھت پڑھت کرنا اور گواہ بننا  لازم آتا ہے ؛ لہٰذا  اس پر اجرت لینا جائز نہیں۔

(2) بینک  کی آمدن میں سود اور ناجائز منافع کا غلبہ ہوتاہے اور بینک اپنے  ملازمین کو تنخواہ سودی کمائی سے ادا کرتا ہے، جب کہ سودی رقم کسی سے لینے کے باوجود اس پر لینے والے کی ملکیت نہیں آتی؛ کیوں کہ ایک تو یہ حرام رقم ہے، دوسرا یہ کہ یہ اصل مالک کی ملکیت ہے، لہٰذا بذاتِ خود حرام رقم  اور دوسرے کی ملکیت سے رقم لے کر کسی کو دینے سے وہ حلال نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ بینک میں کسی بھی قسم کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے اور بینک کی ملازمت سے           ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے۔

 قرآنِ مجید  میں سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔

[البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(صحيح مسلم ، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، 1219/3،: دار إحياء التراث العربي)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے : 

"(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح

وفي المنتقى: امرأة نائحة أو صاحبة طبل أو زمر اكتسبت مالا ردته على أربابه إن علموا وإلا تتصدق به، وإن من غير شرط فهو لها: قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط".

(کتاب الاجارۃ، 55/6،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں