بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی جانب سے ملنے والے کیش بیک کا حکم


سوال

 بنگلہ دیش میں موبائل بینکنگ کا اہم ذریعہ میں سے ایک ذریعہ (موبائل ایپس) بیکاس((BKASH، نقد ( (NAGADوغیرہ میں باہمی لین دین کے ساتھ ساتھ بجلی کا بل(ELECTRICITY BILL)، گیس بل(GAS BILL) اور مجاز((AUTHORIZED دکانوں میں بل کی ادائیگی( (PAYMENTS کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ اس بل کی ادائیگی کے حوالے سے موبائل بینکنگ حکام کی جانب سے مختلف قسم کی پیشکشیں((OFFER آتی رہتی ہیں۔ پیشکشوں میں سے ایک ہے؛ اگر کسی بھی بل کی ادائیگی مذکورہ موبائل بینکنگ یا اس کی ایپ کے ذریعے کی جاتی ہے تو اکاؤنٹ ہولڈر کو ایک مخصوص رقم کیش بیک دیا جاتا ہے۔ اس کیش بیک کی قیمت موبائل بینکنگ کمپنی برداشت کرتے ہے۔ بعض اوقات خریدی گئی پروڈکٹ کی کمپنی/انسٹی ٹیوشن برداشت کرتے ہیں اور بعض اوقات دونوں کا تناسب  برداشت کرلیتے ہیں۔ بیرونی طور پر، چونکہ موبائل بینکنگ میں بچائی گئی رقم قرض/قرض کی فراہمی سے ہے، اس لیے پیشکش کو قبول کرنے اور مذکورہ رقم سے لطف اندوز ہونے میں کچھ شک ہے۔ (1) مذکورہ موبائل بینکنگ کے ذریعے دیے جانے والے کیش بیک کی شرعا کیا حیثیت ہے؟ (2) کیا اس کو سود کا شامل سمجھا جائے گا، یا محض تحفہ سمجھا جائے گا؟ (3) اس صورت میں، اگر کیش بیک موبائل بینکنگ کا ادارہ یا خریدی گئی پروڈکٹ کا ادارہ کے جانب سے ہو، تو یہ فرق احکام شرعیہ پر متأثر ہوگا یا نہیں؟ 

جواب

1۔2۔ موبائل بینکنگ کے ذریعہ خرید و فروخت کی رقم ادا کی جائے یا کسی اور کام کےلئے  رقم ترسیل کی جائے، یہ شرعاً قرض کے حکم میں ہے   اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا مشروط نفع لینا جائز نہیں ہے ؛ اس لیے اس قرض کے بدلے اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کو رقم کی منتقلی،یا بلوں کی ادائیگی پرکیش بیک کی صورت میں جو نفع دیا جاتا ہے،چونکہ وہ بینک  کی جانب سے ہےاس لیے شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز  اور حرام ہے۔

3۔باقی اگر آن لائن خریداری کی صورت میں کیش بیک بائع(موبائل بینکنگ کمپنی کے علاوہ) کی جانب سے ہو تو شرعا وہ رعایت اور ڈسکاؤنٹ کے حکم میں ہے، جو کہ بائع کی جانب سے تبرع ہے،اس لیےاس کا استعمال کرنا جائز ہے،لیکن اگر معلوم نہ ہو کہ یہ کیش بیک موبائل بینکنگ کمپنی کی جانب سے ہے یا بائع کی جانب سے تو احتیاط ہی بہتر ہے۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(کتاب المساقات،ج3،ص1219،ط؛ دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

‌‌[مطلب كل قرض ‌جر ‌نفعا حرام].

(قوله كل قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.

قلت: وهذا هو الموافق لما سيذكره المصنف في أول كتاب الرهن وقال في المنح هناك، وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي، وكان من كبار علماء سمرقند إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم."

(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص166،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں