بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی آمدنی اور انشورنس کی رقم ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی بلکہ واجب التصدق ہوتی ہے


سوال

میرے بہنوئی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے،ورثاء میں بیوہ ،ایک بیٹی شادی شدہ اور دو بیٹے ہیں، آٹھ اور  پانچ سال کے ،بہنوئی صاحب کے والدین کا انتقال کافی پہلے ہی چکا تھا،ان کے بھائی بھی،اس کا انتقال بھی کافی پہلے ہو چکا تھا ،ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو خود کفیل ہیں ،بہنوئی صاحب کی پانچ بہنیں بھی ہیں ،سب شادی شدہ ہیں ،ان کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا ،راہ نمائی فرمائیں۔

1)مرحوم کا ایک فلیٹ تھا ،انہوں نے اس کو اپنی زندگی میں ہی اپنی اہلیہ کے نام کر دیا تھا ،انتقال تک اسی گھر میں رہائش پذیر رہے ،اس کے علاوہ ایک موٹر سائیکل تھی 35000 روپے کی تھی ۔

2)مرحوم بینک میں ملازم تھے ،ان کے انتقال کے بعد بینک کی طرف سے بیوہ کو ہر ماہ 75000 روپے ملے ،کل ملا کر 225000 روپے ۔

3)بینک کی طرف سے پراویڈینٹ فیڈ اور دیگر فنڈ سے 2000000 روپے ملے اور بینک کی طرف سے انشورنس کی مد میں 3000000 روپے ملے ۔

4)گھر میں دو لاکھ روپے تھے جو انہوں نے بیوہ کو  ملکیتاًدے دیے تھے ۔

شریعت کی روشنی میں جو احکام ہوں وراثت کے بارے میں ،راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں ملاحظہ ہوں:

1)واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے ،اور قرآن و حدیث میں سودی لین دین کی سخت ممانعت آئی ہے ،بلکہ سود خور کو  اللہ اور کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے   ،اسی وجہ سےبینک میں کسی قسم کی  ملازمت کرنا  سودی لین دین میں معاونت کرنے کی وجہ سے نا  جانائز اور حرام ہے،اور اس کام کی وجہ سے ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز اور حرام ہے،البتہ مجبوری کی وجہ سے جب تک ملازمت کی ہے اس کی تنخواہ لے لیں ،اگر غربت اور محتاجگی کی وجہ سے استعمال کی ضرورت ہے تو استعمال کریں،اور ضرورت سے زائد رقم ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِ زکوۃ لوگوں میں صدقہ کر  دیں۔

2)حرام  مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا ہے ،بلکہ  ایسامال اصل ملازم  کی طرح ورثاء کے لیے بھی حرام ہوتا ہے اور واجب التصدق ہوتا ہے ،یعنی ورثاء پر لازم ہوتا ہے کہ  حرام مال  کسی مستحق زکوۃ کو صدقہ کریں ۔

3)انشورنس (بیمہ) پالیسی کے تمام مروجہ طریقے سود اور قمار (جوا) پر مشتمل ہیں اور  سود  اور  قمار کا لین  دین  شریعت  مطہرہ  میں  حرام ہے،اس میں اصل رقم اور وہ   رقم جو ادارے نے مزید اپنی طرف سے ملائی ہے وہ دونوں رقموں کا استعمال تو جائز ہے بشرط یہ کہ اصل رقم اور ادارے کی رقم حلال ہو ، اس سے زائد رقم جو انشورنس کمپنی نے ملائی ہےوہ سود ہے ،اس کا استعمال حرام ہے۔

4) محض نام کرنے سے کوئی چیز کسی کی ملکیت میں نہیں آتی ہے ،جب تک کہ وہ  چیز مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ اس کے حوالہ نہ کر دی جائے۔

تمہید کے بعد مذکورہ سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں :

1)صورت مسئولہ میں مرحوم نے چوں کہ یہ گھر اپنی اہلیہ کے نام کیا تھا ،قبضہ و تصرف مرحوم ہی کا تھا،  انتقال تک مرحوم  اس گھر میں رہائش پذیر رہے تو اس صورت میں یہ گھر  مرحوم ہی کا رہا اور اب ان کے انتقال کے بعد تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔

2،3)بینک کی تمام تر آمدنی حرام ہے ،اس لیے بینک سے ملنے والا فنڈ بھی حرام ہے ،ورثاء پر اس کا صدقہ کرنا لازم ہے،نیز انشورنس کی مد میں جو جو رقم ملی ہے ،تو اس میں اصل رقم جو مرحوم نے جمع کرائی تھی وہ ورثاء میں تقسیم ہوگی بشرط یہ کہ وہ حلال آمدنی سے ہو ،وگرنہ یہ رقم  اور وہ رقم جو بینک اور بیمہ کمپنی نے اپنی طرف سے اس میں اضافہ کیا   سب کی سب صدقہ کرنا لازم ہے۔ 

4)یہ رقم مرحومہ کی ہی ہے،اس میں ورثاء کا حق نہیں ہے۔

5)مرحوم کی حلال آمدنی کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو مال کے ایک تہائی حصے میں اسے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 40 حصوں میں تقسیم کر کے 5 حصے بیوہ کو ،ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور بیٹی کو 7 حصے ملیں گے ،بھائی ،بہنیں بھتیجے بھتیجیاں کو کچھ نہیں ملے گا ۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت 8 / 40

بیوہ بیٹیبیٹابیٹا
17
571414

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،ہر ایک بیٹے کو 35 فیصد اور بیٹی کو 17.5 فیصد ملے گا ۔

البتہ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر مرحوم کے پاس تمام مال حرام آمدنی سے ہے،سب کچھ صدقہ کرنے سے کچھ نہیں بچے گا  اور  بیوہ اور بچوں کے پاس بھی اتنا مال نہیں ہے کہ ان کا گزر بسر ہو سکے تو پھر بیوہ اپنے اور  دو بیٹوں کے لیے حسب ضرورت  مال اس میں سے رکھ لے بقیہ مال صدقہ کردے ،اور بیٹی چوں کہ شادی شدہ ہے اس کا نفقہ اس کے شوہر پر ہے اس لیے اس کے لیے باپ کے حرام مال سے انتفاع  حرام ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔وفي الرد (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل"

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99۔ط:سعید)

 السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبى - صلى الله عليه وسلم - أنه قال:كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا."

(باب كل قرض جر منفعۃ فهو ربا:رقم،11037،294/11،هجر للبحوث والدراسات العربيۃ والإسلاميۃ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"‌وإن ‌كان ‌الأب ‌قد ‌مات وترك أموالا، وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثا فنفقته في نصيبه، وكذلك امرأة الميت تكون نفقتها في حصتها من الميراث حاملا كانت أو حائلا"

(کتاب الطلاق ،باب فی النفقات ،ج:1،ص:564،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

(کتاب الہبہ ج:5 ،ص:689،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں