بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کیشئر سے رشتہ کرنے کا حکم


سوال

میری بہن کا رشتہ آیا ہے بینک کیشئر کا اچھے خاندان كے  لوگ ہیں،  بہن کا ایک مرتبہ رشتہ ٹوٹ چکا ہے، عمر نکلتی جا رہی ہے ،والدہ بہت زیادہ ڈیپریشن کا شکار رہتی ہیں ، اب قبول کرنا  چاہيےيا نہیں ؟بظاہر اور کوئی  خرابی بھی نہیں، اکثریت اس رشتے کو قبول کرنے کے حق میں ہے۔

جواب

 بینک  کیشئر سے نکاح کا رشتہ استوار کرنا فی نفسہ جائز ہے، البتہ  بینک کیشئر  کی کمائی حلال نہ ہونے کی وجہ سے مناسب نہیں، اس لیے اگر بینک ملازم کے علاوہ کوئی اور رشتہ ہو یا رشتے کی توقع ہو تو وہاں رشتہ کیا جائے اگرچہ اس کی آمدنی کم ہو  ، کیوں کہ  حرام  کے مقابلے میں حلال  مال  تھوڑا ہی کیوں  نہ ہو  اس میں  سکون اور برکت   ہے،  جب کہ حرام مال خواہ  کتنا ہی زیادہ  ہو اس  میں بے برکتی، تباہی اور بربادی ہے۔

 تاہم اگر کوئی اور رشتہ دست یاب نہیں  اور لڑکی کی عمر گزرتی جارہی ہے اور آئندہ رشتہ کی امید بھی نظر نہیں   آرہی   تو رشتہ کرلیا جائے  اور اس  لڑکے کوآہستہ آہستہ  سمجھایا جائے، اور خود  بینک ملازم کو چاہیے کہ حلال طیب نوکری کی تلاش شروع  کردے اور جیسے ہی کوئی حلال نوکری مل جائے فوراً اسے اختیار کرلے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ٣ / ١٢١٩، رقم الحديث: ١٥٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي- بيروت)

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں"۔

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."

( كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں