بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ذریعہ گھر دلوانے کا حکم


سوال

 میں ایک اسٹیٹ ایجنٹ ہوں اور میرے پاس آئے دن ایسے لوگ آتے ہیں جو بینک لیز کے ذریعے یا بینک کے ذریعے گھر خریدنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں کیا میں ان کو بینک کے ذریعے گھر دلوا سکتا ہوں،  برائے مہربانی راہ  نمائی فرمائیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل بینک سے معاملات طے کرنے میں خریدا ر کا معاون بنتا ہے تو پھر سائل کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا اور سائل بھی اپنے اس عمل پر گناہ گار ہوگا، البتہ گھر کی دلالی پر جو اجرت ملے  گی وہ شرعا حلال ہوگی۔

نیز اگر سائل صرف اسٹیٹ ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے گھر دلواتا ہے اور اس کے بعد بینک کے سارے معاملات خریدار خود کرتا ہے تو پھر سائل کے لیے ایسے لوگوں کو گھر دلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں بینک سے سودی معاملہ کرنا خریدار کا اپنا فعل ہےاو ر سائل کااس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۲،ج نمبر۳ ، ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث العربی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن جابر - رضي الله عنه - قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء) » رواه مسلم

وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل."

(کتاب البیوع، باب الربا، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۹۱۵، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں