بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ملازم کا گھر کرائے پر لینا


سوال

بنک میں ملازمت کرنے والے شخص کا مکان کرائے پر لینا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے مکان کرائے پر لینا حرام نہیں ہوگا اور کرائے کا معاملہ درست ہوجائے گا، لیکن (اگر بینک ملازم نے اپنا مکان بینک کی آمدن سے لیا ہو تو) یہ مکان لینے میں کراہت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام."

(کتاب البیوع باب المتفرقات ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ليأتين على الناس زمان لايبقى أحد إلا أكل الربا فإن لم يأكله أصابه من بخاره» . ويروى من «غباره» . رواه أحمد وأبو داود والنسائي وابن ماجه.

(فإن لم يأكله أصابه من بخاره ويروى من غباره) أي يصل إليه أثره بأن يكون شاهدًا في عقد الربا أو كاتبًا أو آكلًا من ضيافة آكله أو هديته، والمعنى أنه لو فرض أن أحدًا سلم من حقيقته لم يسلم من آثاره."

(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۹۲۲۔دار الفکر)

کفایت المفتی:

’’سوال: ایک آٹے کی مشین ہے وہ حلال اور حرام مال سے خریدی ہوئی ہے یعنی اس مشین والے کی لڑکی طوائف کا کام کرتی ہے اور مشین والا زمین داری کا بھی کام کرتا تھا، مشترکہ مال سے وہ مشین خریدی گئی، اب اس مشین کو ایک دوسرا خریدنا چاہتا ہے آیا اس کی بیع درست ہے یا نہیں؟   

جواب:اس مشین کو خریدنا حرام تو نہیں مگر مکروہ ہے، بیع تو ہو جائے گی مگر کراہت ہوگی۔‘‘

(ج نمبر ۹ ص نمبر ۲۵۴،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں