میں ۶ سال سے بے روزگار تھا اور اب ایک سال پہلے مجھے ایک سافٹ ویئر کمپنی میں نوکری ملی اور اس میں جو دو پراجیکٹ ملے ہیں وہ بینک اور انشورنس کمپنیاں ہیں میری کمپنی ان کمپنی کے لیے سافٹ ویر بناتی ہیں،میں نے ان سے مطالبہ بھی کیا کہ مجھے بینک اور انشورنس کے بجائے دوسرے شعبے والے پراجیکٹ دیں پر وہ نہیں مان رہے ہیں، شروع میں میں اپنی تنخواہ استعمال کرنے سے بھی ڈر تا تھا کیونکہ سارا سود کی کمپنی کے کام کرنے سے ملا،لیکن اب حال یہ ہیکہ میں ِ خود بھی تنخواہ کھا رہا ہوں اور دوسروں کو بھی کھلا ر ہا ہوں،پر اندر ہی اندر مجھے اپنے آپ سے گھن ہو رہی ہے،میرےپاس اور کوئی معاش کا ذریعہ ہیں بھی نہیں اور والدین کے انتقال کے بعد وراثت بٹی بھی نہیں اور وراثت مانگنے کی ہمت مجھ میں نہیں،میں کیا کروں میں کام بھی صحیح سیکھ نہیں پا رہا ہوں کیونکہ جب بھی ارادہ کرتا ہوں خیال آتا ہیکہ میری ساری کمائی حرام ہیں اور میرا رب مجھ سے ناراض ہیں۔میں دوسری نوکری کی بھی تلاش مسلسل کر رہا ہوں۔میری رہنمائی فرمائیں
صورت مسئولہ میں سائل کا ایسی کمپنی میں(بطور سافٹ ویر انجینئر) ملازمت کرنا جو بینک اور انشورنس کمپنیوں کو پراجیکٹ بناکر سہولت فراہم کرتی ہے بوجہ سودی ادارہ کے ساتھ معاونت کے شرعا جائز نہیں ہے ،لہذا سائل کسی دوسری جگہ جائز ملازمت تلاش کرتا رہے، اس وقت تک مذکورہ کمپنی میں توبہ واستغفار کے ساتھ ملازمت جاری رکھے،صرف ضرورت کے بقدر اس آمدنی کو استعمال کرے ،جائز ملازمت ملنے پر مذکورہ ملازمت ترک کردے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق............
قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا
(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر)
(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل."
(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج6،ص391،ط؛سعید)
الموافقات للشاطبی میں ہے:
"أن فعل المباح سبب في مضار كثيرة:
منها: أنه سبب في الاشتغال عن الواجبات، ووسيلة إلى الممنوعات؛.........والثاني:أنا إذا نظرنا إلى كونه وسيلة؛ فليس تركه أفضل بإطلاق, بل هو ثلاثة أقسام: قسم يكون ذريعة إلى منهي عنه؛ فيكون من تلك الجهة مطوب الترك."
(کتاب الاحکام،ج1،ص172،ط:دار ابن عفان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100410
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن