بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں تنخواہ جمع ہونا


سوال

میں ایک ہسپتال میں جاب کرتا ہوں۔ہسپتال والے پیسے پنجاب بینک کے اکاؤنٹ میں بھیجتے ہیں۔ایک مدرسے کے طالب علم سے پتا چلا کہ بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ رکھنے سے سود میں معاونت کا گناہ ہے۔ میں ابھی نوکری نہیں چھوڑ سکتا، بتائیں کیا کروں؟

جواب

 واضح رہے کہ مال کی حفاظت کی اگر کوئی معتمد صورت نہ ہو  تو بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں حفاظت کی غرض سے مال رکھوانے کی گنجائش ہے، البتہ اگر کوئی  متبادل صورت ہو تو پھر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی رقم رکھوانے سے اجتناب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے والا اگرچہ عملی طور پر کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرتا، لیکن بینک اس کی رکھوائی گئی رقم سودی معاملات میں استعمال کرلیتاہے، اور مال رکھوانے والا نہ چاہتے ہوئے بھی سودی لین دین کا کسی نہ کسی درجہ میں حصہ بن جاتا ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کے پاس مال کی حفاظت کی کوئی متبادل صورت موجود ہے تو  اکاؤنٹ میں تنخواہ  آتے ہی نکلوالے  اور فوراً رقم نکلوانے کی صورت میں سائل سودی کاروبار کا سبب بھی نہیں بنے گا اور  ہسپتال والے جو تنخواہ بینک میں بھیج دیتے ہیں اس کا ذمہ سائل پر نہیں اور نہ ہی سائل کو اس وجہ سے نوکری چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ نیز اگر بینک میں نہ رکھنے کی صورت میں مالی نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر سائل کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ تنخواہ بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں ہی رہنے دے اور ضرورت کے بقدر استعمال کرتا رہے۔

کفایت المفتی:

’’حفاظت کی معتمد صورت نہ ہو تو بینک میں جمع کرادینا مباح ہے‘‘۔ (ج نمبر ۷ ص نمبر ۱۰۲،دار الاشاعت)

الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص: 73ط :دار الكتب العلمية:

’’الأولى: الضرورات تبيح المحظورات‘‘.

الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص: 73 ط :دار الكتب العلمية:

’’الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها‘‘. فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144111200771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں