میرے شوہر یوبی ایل بینک میں 12سال سے آپریشن مینیجر کی پوسٹ پر نوکری کر رہے ہیں، بینک کی جانب سے ان کو گھر خریدنے کی سہولت دی گئی ہے، اور گھر کی جو بھی قیمت ہو گی وہ ہر ماہ ان کی تنخواہ میں سے کٹے گی، جس میں کچھ فیصد سود بھی شامل ہو گا، تو کیا اس طرح ہم گھر خرید سکتے ہیں؟ کیا سود بھرنے کا گناہ ہوگا ؟گھر کی ضرورت اس لیے ہے کہ سسرال میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے، اور جگہ کی تنگی ہے، اور اس کے علاوہ گھر خریدنے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ بینک کا لین دین سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے بینک کی ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے، اور بینک کی ملازمت سے ملنے والی آمدن یا تنخواہ بھی حلال نہیں ہے۔
لہٰذا بینک جو ہرماہ آپ کے شوہر کی تنخواہ سے رقم کاٹے گی، وہ بھی اور اس پر لگنے والا سود‘ دونوں حلال نہیں ہیں، اس لیے بینک کی ملازمت سے ملنے والی رقم سے گھر خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
آپ کے شوہر جتنے جلدی ہوسکے کوئی اور حلال روزی تلاش کریں، اور کسی حلال آمدنی والے شخص سے ادھار رقم لےکر گھر خرید لیں، پھر اپنی حلال آمدن سے قرضہ چکا ئیں۔
باقی جب تک گھر میسر نہیں ہوجاتااللہ تعالیٰ سے دعاکرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ اسی گھر میں برکت دے دیں گے۔
سنن أبی داؤدمیں ہے:
"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وشاهده، وكاتبه."
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس (سودی معاملہ) کے گواہ بننے والے اور اس کے لکھنے والے (سب) پر لعنت فرمائی ہے۔
(کتاب البیوع، باب آکل الربا وموکله، 2 /128 ، 129، ط: رحمانیة)
بذل المجھود میں ہے:
"(وموكله وشاهده) أي الذي يكتب الشهادة (وكاتبه) قال النووي فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين بأجر كان أو بغير أجر، والشهادة عليهما، وتحريم الإعانة على الباطل."
(کتاب البیوع، باب فی آکل الربا وموکله، 11/ 19، ط: دار البشائر الإسلامیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603101136
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن