بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ملازم پر قربانی کے وجوب کا حکم


سوال

اگر بینک کے ملازم کا ذریعہ آمدنی کوئی نہ ہو اور ان کا یہ مال نصاب کو پہنچ جائے تو کیا اس پر قربانی واجب ہے؟

جواب

بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود ی رقم ہی سے ملازمین کو تنخواہ دی جاتی ہے اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے ، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں،  لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے  اور تنخواہ بھی حرام ہے، لہذا  مذکورہ شخص کو چاہیے کہ  توبہ واستٖغفا ر کرے اور  کوئی جائز ذریعہ آمدنی تلاش کرے اور پھر بینک کی ملازمت ترک کردے، باقی بینک کے ملازم کے پاس اگر صرف بینک کی کمائی ہی کے پیسے ہوں تو  چوں کہ وہ سارے پیسے واجب التصدق ہیں؛ اس لیے  وہ پیسے نصاب کے بقدر ہونے کے باوجود وہ صاحبِ نصاب نہیں بنے گا اور اسی وجہ سے اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہوگا۔

صحيح مسلم (2/ 703):

"عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لايقبل إلا طيباً، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحاً، إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172]، ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 291):

"في القنية: لو كان الخبيث نصاباً لا يلزمه الزكاة ؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلايفيد إيجاب التصدق ببعضه. اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں