بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کا قرضہ مانع نصابِ زکوٰۃ شمار ہوگا یا نہیں؟


سوال

 کیا سود دین میں شمار ہو کر مانعِ تکمیلِ نصابِ زکوٰۃ ہوگا یا نہیں؟ یعنی کسی شخص پر مثلا بینک کی جانب سے سود بہت زیادہ لازم ہو گیا ہے، تو کیا یہ سود بھی دین شمار ہوگا، اور اس کی وجہ سے وجوبِ زکات سے مانع ہوگا؟ 

جواب

واضح رہے کہ بینک کا قرض بھی دیگر قرضوں کی طرح ہی قرض ہوتا ہے، جس کی ادائیگی مقروض کے ذمہ لازم ہوتی ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص پر بینک  کا قرض سود سمیت ادا کرنا لازم ہے، اوروہ شخص صاحبِ نصاب (اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اموالِ تجارت، یا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد مال موجود )ہو، تو اس شخص پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، جب تک قرض کی رقم  کے بقدر رقم اپنے مال سے منہا کرنے کے بعد باقی ماندہ رقم نصابِ زکوٰۃ کے بقدر نہ رہ جائے، یعنی قرض   کی رقم منہا کرنے کے بعد اگر باقی رقم (مال) زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر باقی رہے، تو زکوٰۃ لازم ہوگی ، اوراگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد بقیہ ماندہ رقم نصابِ زکوٰۃ سے کم ہو تو پھر مذکورہ شخص پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔

نیزسود لینا اور دینا دونوں حرام ہے، اور  اس صورت میں قرض پر لاگو ہونے والے سود کو نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا،یعنی وہ  رقم جوبینک سے قرض لینے کےبعد قرض کی ادائیگی کے وقت بینک کو  سود کی مد میں دی جائے گی، وہ قرض میں شامل نہیں، اور وہ رقم نصاب سے منہا بھی نہیں کی جائے گی، بلکہ اس شخص کے ذمہ  قرض کی مد میں جو رقم ادا کرنی ہے، صر ف وہ رقم نصاب سے منہا کی جائے گی۔

تاہم بہتر یہی ہے کہ انتہائی ضرورت اور مجبوری کے وقت بھی بینک سے سودی قرض لینے کے بجائے کسی دوسری جگہ  سے بلاسودی قرض لینے کی کوشش کی جائے، تاکہ سودی لین دین سے مکمل طور پر بچا جاسکے،قرآنِ کریم میں سودی لین دین سے نہ بچنےوالوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ کا حکم ہوا ہے، اسی لیے سائل اپنےلیے اس کے متبادل کوئی اور جائز اور حلال کام تلاش کرکے اس کو اپنا ذریعہ معاش بنائے۔

قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ."(البقرة:278، 279)

ترجمہ:اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔(از بیان القرآن)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوددینے اور لینے دونوں کے متعلق لعنت کا ذکر فرمایاہے:

"عن جابر رضي الله عنه، قال: ’’لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه‘‘ ، وقال: ’’هم سواء‘‘."

(مشکوٰۃ المصابیح، باب الربا،الفصل الأول،  رقم:2807، ج:2، ص:855، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔‘‘

(از مظاہر حق)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و سببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)."

(کتاب الزکوٰۃ، ج:2، ص:259، ط:سعید)

المحیط البرھانی میں ہے:

"ما يمنع وجوب الزكاة أنواع، منها الذي قال أصحابنا رحمهم الله: كل دين له مطالب من ‌جهة ‌العباد يمنع وجوب الزكاة، سواء كان الدين للعباد، أو لله تعالى كدين الزكاة.فأما الكلام في دين العباد، فنقول: إنما منع وجوب الزكاة؛ لأن ‌ملك ‌المديون في القدر المشغول بالدين ناقص، ألا ترى أنه يستحق أخذه من غير مضار لا رضا، كأنه في يده غصب أو وديعة؟ ولهذا حلت له الصدقة، ولا يجب عليه الحج، والملك الناقص لا يصلح سبباً لوجوب الزكاة."

(كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان ما يمنع وجوب الزكاة، ج:2، ص:293، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں