بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کا قرض ادا کرنے کے لیے مسجد میں سوال کرنا جائز نہیں ہے


سوال

سائل ایک گورنمنٹ ملازم تھا، ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سائل نے مویشیوں کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں سائل کو نقصان ہوا جس کے لیے سائل کو اپنی پنشن پر بینک سے قرض لینا پڑا،بینک کا قرض سراسر سود ہےجس کی نحوست کی وجہ سے سائل کے گھرکے حالات مزید خراب ہونے لگے سائل حلفاً اقرار کرتا ہے سائل کے پاس کوئی پراپرٹی نہیں ہے جس کو فروخت کر کے وہ بینک کا قرض اتار سکے کیا بینک کے اس قرض کو ختم کرنے کے لیے سائل مسجد میں جا کر ائمہ مساجد کے ذریعہ سے عوام کے سامنے سوال کر سکتاہے کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے پاس اگر مویشی وغیرہ موجود ہیں تو اس پر لازم ہے کہ انہیں فروخت کر کے وہ اپنا قرض ادا کرے، اسی طرح اگر سائل کے پاس سونا ، نقد رقم وغیرہ ہو تو اسے بھی اپنا قرضہ اتارنے میں استعمال کرے اس سب کے بعد اگر قرض باقی ہو اور سائل   کے پاس  قرض ادا کرنے کے لیے  کوئی انتظام  نہ ہو تو  سائل باقی قرض ادا کرنے  کے  لیے زکوٰۃ وغیرہ لے سکتا ہے، لیکن  اس مقصد کے لیے مسجد میں  جا کر لوگوں سے سوال کرنا  جائز نہیں ہے۔

نوٹ: یہ سوال کا جواب ہے نہ تصدیق ہے نہ سفارش ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"«وأما قوله تعالى: {‌والغارمين} [التوبة: 60] قيل: الغارم الذي عليه الدين أكثر من المال الذي في يده أو مثله أو أقل منه لكن ما وراءه ليس بنصاب.»

(كتاب الزكاة،فصل:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه2/ 45،ط:سعید)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(و مديون لا يملك نصابًا فاضلًا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير.

(قوله: و مديون) هو المراد بالغارم في الآية."

(كتاب الزكاة،‌‌باب العشر،باب مصرف الزكاة والعشر2/ 343،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"«ويحرم فيه السؤال، و يكره الإعطاء مطلقًا، و قيل: إن تخطى»

(قوله: و قيل: إن تخطى) هو الذي اقتصر عليه الشارح في الحظر حيث قال: فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس في المختار."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها1/ 659)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں