بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کا پانی پینا


سوال

کیا بینک میں جو پینے کا پانی ہوتا ہے، وہ پینا جائز ہے؟

جواب

بینک ایک سودی ادارہ ہے، اور سودی آمدن کے ذریعہ بینک اپنی ضروریات پوری کرتاہے،اس لیے بینک کی طرف سے  ملنے والی اشیاء(کھانا پینا) استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اگر بینک  کے علاوہ قریب میں اور کہیں پانی دست یاب نہ ہو  اور پیاس کی شدت ہو تو بینک کا پانی پی سکتا ہے۔

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لاينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لاتخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں