بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کا ماسک اور سینیٹائزر استعمال کرنا


سوال

جب ہم کسی ضرورت کی وجہ سے بینک جاتے ہیں تو وہاں پر ماسک لگائے بغیر داخلہ ممنوع ہوتا ہے اور بعض دفعہ ہمارے پاس ماسک نہیں ہوتا تو بینک والے اپنے پاس سے ہمیں ماسک لگانے کے لیے دیتے ہیں اور وہ اس کے بعد ہمارے پاس ہی رہتا ہے، اسی طرح سینیٹائزر بھی لگانے کو دیتے ہیں۔ کیا بینک سے ماسک لینا اور ان کا سینیٹائزر کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ غالب  یہی ہے  ان کی سودی کمائی سے ہی خریدا ہوا ہوگا!

جواب

واضح رہے کہ جس کی آمدن کُل حرام ہو یا اس کا اکثر حصہ حرام ہو تو اس سے ہدیہ قبول کرنا  جائز نہیں، لہذا بینک کی طرف سے دیے جانے والے ماسک کا بھی یہی حکم ہے، اس کا لینا بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا شدید ضرورت نہ ہو وہ استعمال کرکے بینک میں داخل نہ ہوں، بلکہ اپنا ماسک خرید کر داخل ہوں، اور اگر مجبوری ہو اور بینک میں داخل ہوتے وقت ماسک موجود نہ ہو  اور بامر مجبوری اس کو بینک والوں سے ماسک لینا پڑے، تو اس ماسک کو بینک کا قانون و ضابطہ پورا کرنے کے لیے صرف وہیں استعمال کیا جائے اور اس کے بعد ضائع کر دیا جائے۔

اسی طرح  بہتر یہ  ہے کہ سینیٹائزر بھی اپنا  ہی  استعمال کیا جائے،  ہاں اگر  کسی وقت مجبوراً بینک کا سینیٹائزر استعمال کرنا پڑے، تو اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ در گزر فرمائے گا۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیه أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

(5 / 343، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں