بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک والوں کا کھاتےداروں کی اجازت کے بغیر جمع شدہ رقم سے زکوۃ ادا کرنےکا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ اگر بینک کسی کی رقم بغیر اس کی رضامندی کے کاٹ لے تو کیا اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ 

جواب

بصورت مسئولہ اگر بینک والے کھاتے داروں کی اجازت کےبغیر   زکوۃ ادا کرتےہیں خواہ وہ اصل رقم سے ہو یا اصل رقم سے نہ ہو بلکہ نفع کے نام سے جمع ہونے والی سود کی رقم سے ہو  تو  زکوۃ ادا نہیں ہوگی، ایسی صورت میں کھاتے داروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی زکوۃ خود ادا کریں۔

واضح رہے کہ بوقتِ ضرورت بینک میں غیر سودی کھاتہ کھولنے کی اجازت ہے، اور بینک غیر سودی اکاؤنٹ سے زکات بھی نہیں کاٹتے، لہذا اپنا اکاؤنٹ تبدیل کرکے کرنٹ اکاؤنٹ بنادیجیے۔ اور اگر اپنے اختیار سے سودی اکاؤنٹ کھولا ہو تو توبہ و استغفار بھی کیجیے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

ان الزکوة عبادة عندنا و العبادة لاتتادی الا باختیار من علیه اما بمباشرته بنفسه او بامره وانابتة غیره فیقوم النائب مقامه فیصیر  هو مؤدیا بید النائب. (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج:2، ص:53، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

ان الساعی لو اخزها منه کرها لایسقط الفرض عنه فی الاموال الباطنة. (ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:2، ص:268،ط:ایچ سعید)  فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110201750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں