بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بینک چلانا جائز ہے؟


سوال

بینک چلانا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں فی زمانہ ہر قسم کے بینک کا نظام سود پر مشتمل ہے ،سودی معاملات سرانجام دئے جاتے ہیں  اور شرعاً کسی بھی قسم کا سودی لین دین کرنا یا اس میں معاونت کرنا حرام ہے، لہٰذا (سودی )بینک کا چلانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌جابر قال: « لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله، ‌وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء »."

(صحيح مسلم، كتاب البيوع، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج: 5، ص: 50، ط: دار الطباعة العامرة تركيا)

ترجمہ: ’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں