بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کےساتھ بیمہ(انشورنس) کرنےکاحکم


سوال

بینک میں بیمہ پالیسی کرنا حلال ہے یا حرام؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بینک کےساتھ بیمہ (انشورنس)کا معاملہ  بھی ایک سودی معاملہ ہے، بیمہ( انشورنس) کے اندر  "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے،انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے  کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ اگر کوئی بیماری وغیرہ لاحق نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے،اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا  بیمہ(انشورنس) کرنا  اور کرانا اور بیمہ پالیسی  کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾." [المائدة: 90]

ترجمہ:"اے ایمان والو!بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیریہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں،سو اس سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"(از بیان القرآن) 

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن ‌جابر قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: ‌هم ‌سواء ".

(باب لعن آكل الربا وموكله، 50/5، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے ، کھلانے والے ، (سُود کا حساب) لکھنے والے  اورسود پر گواہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔ ‘‘

فتاوی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه ‌وهو ‌حرام ‌بالنص".

(كتاب الحظر والإباحة  ،فصل في البيع، 403/6، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں