بینک الحبیب اپنے ہر اس ملازم کو، جوکہ اپنی سروس پانچ سال مکمل کرچکا ہو، اس کو گھر خرید کر دیتا ہے، جس کے عوض بینک اصل رقم کے علاوہ دوفیصد سروس چارجز کی مد میں وصول کرتا ہے، جس کی ادائیگی بیس سالہ یکساں اقساط میں ہے، اگر بیس سال سے پہلے تمام رقم کی ادائیگی کرنا چاہیں تووہ بھی کرسکتے ہیں، کیا اس طریقہ پر گھر لینا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ بینک کے معاملات سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نا جائز اور حرام ہوتے ہیں؛ اس لیے بینک میں کسی قسم کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے، نیز بینک سے ملنے والی تنخواہ بھی حلال نہیں ہوتی۔نیز اس طرح ملازمت کے عوض بینک سے کسی قسم کا مالی فائدہ اٹھا نا بھی جائز نہیں ۔
لہذا اولاً یہ کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی دوسری جائز ملازمت تلاش کی جائے اور جیسے ہی کوئی ملازمت مل جائے تو بینک کی ملازمت کو ترک کر دیا جائے۔
باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ پانچ سال ملازمت کی مدت پوری ہو جانے کے بعد بینک اپنے ملازم کو مکان لے کر دیتا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کے معاملات میں شریعت جن شرائط کا پابند بناتی ہے عام طور پر ان پابندیوں اور شرائط کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے یہ معاملہ نا جائز ہو جاتا ہے؛ اس لیے اس معاملہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
سنن ترمذی میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة». وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود: «حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح»، والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولايفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما ... وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولايدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته."
(أبواب البيوع، باب ماجاء في النهي عن بیعتین في بیعة، ج:1،ص:364،رقم: 1193،ط: رحمانیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن