کیا بینک انٹرسٹ کے پیسے کسی غریب بہن بھائی کو دے سکتا ہے؟
واضح رہے کہ بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولنا جائز ہی نہیں ،اگر سائل نےسیونگ اکاؤنٹ کھولا ہے تو اس پر استغفار بھی کرے اور اسے فورًا بند کردے یا کرنٹ اکاؤنٹ سے تبدیل کروادے،بینک کے منافع (سود) سے متعلق اصل حکم یہ ہے کہ اُس کو بینک سے وصول ہی نہ کیا جائے، لیکن اگر وہ وصول کر لیا ہو تو کسی مستحق کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیا جائے،لہذا اگر سائل نےلاعلمی میں سودی رقم وصول کر لی ہے، تو ثواب کی نیت کے بغیر وہ رقم اپنے کسی مستحق بھائی،بہن کو اس کی ذاتی استعمال کے لیے دے سکتا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".
(كتاب المساقاة، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:3 ص:1219 ط: داراحیاءالتراث العربی)
فتاوی شامی میں ہے:
"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج: 5 ص: 99 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100617
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن