بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک گارنٹی کا حکم


سوال

بنک گارنٹی کا کیا حکم ہے؟

جواب

مروجہ بینک گارنٹی کا معاملہ (یعنی بینک کا آپس میں کوئی کاروباری معاملہ کرنے والے دو فریقوں میں سے ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے ضامن بننا) شرعًا جائز نہیں ہے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں اگرچہ عقدِ کفالہ (کسی کی طرف سے ضمانت و گارنٹی دینا) جائز ہے، لیکن عقدِ کفالہ  چوں کہ  خالص تبرع ہے؛ اس لیے کفالہ (ضمانت) کے بدلے اجرت لینا جائز نہیں ہے، جب کہ بینک جس کی طرف سے گارنٹی لیتا ہے اس سے اس گارنٹی (ضمانت) کے عوض اپنی اجرت بھی وصول کرتا ہے جو کہ ناجائز ہے، بلکہ اگر بینک نے کسی فرد یا ادارے کی طرف سے رقم کی ادائیگی کی ضمانت لی ہو اور بینک اس فرد یا ادارے کی طرف سے خود ادائیگی کرنے کے بعد اس فرد یا ادارے سے ادا شدہ رقم کے ساتھ اپنی اجرت بھی وصول کرے تو یہ اجرت اس قرض کی ادائیگی کا معاوضہ کہلائے گی جو بینک نے اس فرد یا ادارے کی طرف سے کی تھی اور قرض کا عوض ہونے کی وجہ سے یہ اجرت لینا سود کے حکم میں ہوگی یعنی گویا بینک نے اپنی طرف سے اس فرد یا ادارے کا قرضہ ادا کیا اور پھر اس قرض پر معاوضہ وصول کرلیا جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)(5/ 281):

كتاب الكفالة

مناسبتها للبيع لكونها فيه غالبا ولكونها بالأمر معاوضة انتهاء (هي) لغة الضم، وحكى ابن القطاع كفلته وكفلت به وعنه وتثليث الفاء. وشرعا (ضم ذمة) الكفيل (إلى ذمة) الأصيل (في المطالبة مطلقا) بنفس أو بدين أو عين كمغصوب ونحوه

 (قوله: لكونها فيه غالبا) الأولى حذف اللام، والأولى أيضا كونها عقبه غالبا. قال في الفتح: أوردها عقب البيوع؛ لأنها غالبا يكون تحققها في الوجود عقب البيع فإنه قد لا يطمئن البائع إلى المشتري فيحتاج إلى من يكفله بالثمن، أو لا يطمئن المشتري إلى البائع فيحتاج إلى من يكفله في المبيع وذلك في السلم، فلما كان تحققها في الوجود غالبا بعدها أوردها في التعليم بعدها.

(قوله: ولكونها إلخ) عبارة الفتح: ولها مناسبة خاصة بالصرف، وهي أنها تصير بالآخرة معاوضة عما ثبت في الذمة من الأثمان، وذلك عند الرجوع على المكفول عنه، ثم لزم تقديم الصرف لكونه من أبواب البيع السابق على الكفالة.

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں