بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک گارنٹی بناکر اس سے نفع لینے کا حکم


سوال

بینک میں نقد رقم رکھ کر بینک سے بینک گارنٹی( بی جی) بنواکر بینک سے نفع  لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بینک میں نقد رقم کے عوض بینک گارنٹی  (بی جی ) بنواکر نفع لینا جائز نہیں ہے،کیوں کہ نقد رقم جو بینک میں جمع کی گئی ہے اس کی حیثیت کی قرض ہے ،اور قرض پر نفع لینا  سود ہے ،جو کہ ناجائز اور حرام ہے،لہذا بینک میں نقد رقم رکھواکر بینک گارنٹی  بنواکر نفع لینا جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}."[البقرة:278، 279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

حدیث پاک میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج: 3، ص: 1219، ط: دار إحياء التراث العربي)

 

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔"(از مظاہر حق)

السنن الكبرى للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا."

(كتاب البيوع ، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا : 573/5 ، رقم : 10933، ط : دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں