ایک سٹوڈنٹ بیرون ملک تعلیم کیلئے جانا چاہتا ہے سارے کوائف اور کاغذی کاروائی پورا کرنے کے بعد یونیورسٹی والوں نے بینک اسٹیٹمینٹ کا مطالبہ کیا کہ اپنا بینک اسٹیٹمینٹ دیکھاؤ، جس میں کم از کم 60 لاکھ روپے 35 یا 40 دن تک موجود ہوں، اب اس سٹوڈنٹ نے بینک اسٹیٹمینٹ کیلئے ایک بینک منیجر سے رابطہ کیا کہ مجھے اسٹیٹمینٹ کی ضرورت ہے، جس میں (60) یا (65) لاکھ روپے شو ہوں، بینک منیجر نے بتایا کہ میں تمھارے لئے یہ اسٹیٹمینٹ بنا سکتا ہوں اور (60) یا (65) لاکھ روپے (40) دن کیلئے موجود ہوں گے اور اگر یونیورسٹی والے ویری فیکیشن بھی چاہیں تو وہ بھی میں کروں گا ،لیکن اس کیلئے تم مجھے (1)لاکھ روپے دو گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اگر جائز ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر ناجائز ہے تو براہِ کرم جواز کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں محض بینک اسٹیٹمنٹ بنانے کی غرض سے کسی سے بلاسود قرضہ لے کر اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم رکھناجائز ہے، البتہ بینک منیجر کو ایک لاکھ رقم دے کر اس طرح اسٹیٹمنٹ بنانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ قرض پر نفع لینا ہے، اور وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:
"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره كل قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد".
(الفصل التاسع والعشرون في القرض ما يكره من ذلك، وما لا يكره، ج:5، ص:394، ط:دارالكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403102314
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن