میں نے بینک میں اکاونٹ کھلوایا، ان کی شرط یہ تھی کہ آپ کو اس میں 3000 رکھنے ہوں گے، اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے اور ہم آپ کو ہمارے پاس اکاؤنٹ کھلوانے پر 300 درھم دیں گے بطور انعام ۔ کیا وہ 300 درھم لینا جائز ہے یا وہ سود میں شمار ہوں گے؟
بینک اکاؤنٹ کھلواکر اس میں مخصوص رقم رکھنے کی شرط پر جو بینک کی طرف سے گفٹ دیا جارہا ہے، وہ شرعًا سود کے حکم میں ہے ، کیوں کہ یہ گفٹ اس قرض کی وجہ سے مل رہا ہے جو اس نے بینک اکاؤنٹ میں رکھوایا ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہو وہ سود کے زمرے میں آتا ہے؛ اس لیے اس رقم کا لینا اور استعمال کرنا شرعًا ناجائز ہے۔
"فتاوی شامی" میں ہے:
"و في الأشباه: كل قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."
(5/166، مطلب کل قرض جر نفعًا، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن