بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کو کم حصہ دینا


سوال

والد صاحب کا 2006ء  انتقال ہوا تھا، والد صاحب کے پاس ایک شادی ہال، ایک مکان اور کچھ دکانیں تھی، ان سب کی قیمت تقریباً تیس کروڑ روپے ہے، ہم چھ بھائی اور تین بہنیں ہیں، والد صاحب کے ورثاء میں بیوہ، چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں،  چھ بیٹوں(ہمارے بھائیوں) میں سے دو   بیٹوں کو ان کی رضامندی سے   کچھ حصہ دے  والدین کی جائیداد سےکر فارغ کردیا ہے، 2022ء میں میری والدہ کا انتقال ہوا، ان کی ملکیت میں ایک مکان اور کچھ دکانیں تھی، والدہ مرحومہ کے انتقال سے پہلے بھائیوں (مرحومہ کے بیٹوں) نے زبردستی والدہ مرحومہ کی جائیداد کو اپنے نام ٹرانسفر کروائی، والدہ مرحومہ  نے زبردستی دستخط اور انگوٹھا لگادیا، لیکن بعد میں گھر آکر رورہی تھی، والد صاحب کے ترکہ میں سے چار بھائی اپنی بہنوں کو بہت کم حصہ دے رہے ہیں، جب بہنیں اپنا حصہ مانگنے جاتی ہیں، تو گالیاں دے کر بھگاتے ہیں ،  کہتے ہیں کہ کورٹ سے حصہ لو ،کہتے ہیں" شریعت کی ایسی کی تیسی" 

(1) اب سوال یہ ہے کہ بھائیوں نے جو زبردستی والدہ مرحومہ کی جائیداد اپنے نام کرالی، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی کیا کیا وعیدیں ہیں؟

(2)بہنوں کو کم حصہ دینا کیسا ہے؟ ان کا مقررہ حصہ نہیں دے رہے ہو، تو کیا کیا جائے؟

(3) والدین کے ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اس میں بہنوں کاکیا حصہ ہوگا؟

جواب

(1)واضح رہے کہ کسی کا مال اس کی رضامندی کے بغیر زورزبردستی لینا یا اس کو اپنے نام کرانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اس سے کوئی اس مال کا مالک نہیں بنتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں  والدہ  کی رضامندی  کے بغیر  والدہ کی مملکوکہ جائیداد  کو بیٹوں کا اپنے نام کرنا  ناجائز ہے،مذکورہ بیٹے اس مکان اور دکانوں کے مالک نہیں بنے، حدیث شریف میں ہے کہ خبردار ظلم مت کرو، کسی کا مال اس کی طیب نفس کےبغیر کسی کے لئے حلال نہیں ہے، اسی طرح ایک اور حدیث میں ہےکہ جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین دبالے گا، قیامت کے دن وہ زمین سات زمینوں  تک بطور طوق اس کے گردن میں ڈال دی جائے گی ۔  لہذا  مذکورہ بیٹوں(سائلہ کے بھائیوں)پر لازم ہے کہ   مذکورہ  جائیداد کو مرحومہ کے شرعی ورثاء کے درمیان  ان کےشرعی حصص کے تقسیم کرے اور بیٹوں(سائلہ کے بھائیوں) کو اپنے اس فعل پر  توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ والدہ مرحومہ کے حق میں ہمیشہ دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ والدہ مرحومہ  کے حق میں جو کوتاہی ہوئی اور  تکلیف پہنچائی اس کا مداوا ہوسکیں۔

(2)واضح رہے کہ  قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ سب احکام مذکورہ خداوندی ضابطے ہیں اور جو شخص اللہ اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں داخل کر دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جائے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہو گی جس میں ذلت بھی ہے(سورۃ النساء)، اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  کتاب اللہ میں میراث کا جو حصہ متعین ہے، وہ صاحبِ حق کو دو۔ الخ لہذا سائلہ کے بھائیوں پر لازم ہے کہ  شرعاً جو حصہ بہنوں کا متعین ہے وہ ان کو مکمل طور پر  دےدے، اس میں کمی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، سائلہ کو چاہیے کہ خاندان کے معاملہ فہم اور بڑے حضرات کے سامنے اس معاملہ کو رکھے اور اس کو  خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرے، اگر اس کے باوجود سائلہ کے بھائی  ان کو ان کا شرعی حصہ نہ دے، تو عدالت میں اپنے حق کی وصولی کے لئے جاسکتی ہے۔

(3)سائلہ کے والدین کے ترکہ کی شرعی تقسیم  کا طریقہ یہ ہے کہ مرحومین کے حقوق متقدمہ یعنی  تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحومین کے ذمہ کوئی قرضہ ہو ، اس کو کل مال میں ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو  باقی مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد  کو11 حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے مرحومین کے ہراس بیٹے کو جس نے حصہ نہیں لیا اور ایک حصہ مرحومین کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی:

سائلہ کے والدین مرحومین:15                  تخارج:11

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
222222111
متخارجمتخارج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی فیصد کے اعتبار سے18.1818 فیصد مرحومین کے ہراس بیٹے کو جس نے حصہ نہیں لیا اور 9.090 فیصد مرحومین کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

قرآن کریم میں ہے:

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)       

(سورۃ النساء)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، الفصل الاول، ج: 2، ص: 887، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألالا ‌تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى"

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 889، ط: المکتب الاسلامی بیروت)

وفیہ ایضاً:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»"

(کتاب الفرائض والوصایا، ج: الفصل الاول، ج:2 ص: 917، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيره شرعا فهو أخذ مال متقوم محترم بغير إذن المالك على وجه يزيل يد المالك إن كان في يده أو يقصر يده إن لم يكن في يده كذا في المحيط."

(کتاب الغصب، ج: 5، ص: 119، ط: دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں