اگر کسی سے بندوق کے زور پر طلاق دلوائی جائے اور صرف وہ دستخط کرے، زبان سے نہ بولے اور اس کی بیوی کی رخصتی بھی نہ ہوئی ہو تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ اگر ہوگئی ہو تو کیا اس سے دوبارہ نکاح ہوسکتاہے؟ اور اس لڑکے کا بھی دوسرا نکاح نہیں ہوا ہو!
اگر واقعتًا کسی شخص کے سر پر بندوق رکھ کر جان سے مارنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا خوف بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر بھی سکتا ہے تو اس صورت میں اگر اس شخص نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے، بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، اس صورت میں دوبارہ نکاح کرنے ضرورت نہیں ہے، پہلا نکاح برقرار ہے۔
اور جس صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، یعنی اِکراہِ شرعی نہ پایا جائے اور صرف تحریری طلاق دی، یا اِکراہِ شرعی تھا اور زبانی طلاق دے دی، اس صورت میں بھی طلاق کے الفاظ اور تعداد کو جانے بغیر جواب دینا ممکن نہیں ہے؛ لہٰذا اگر ایسی صورت پیش آئی ہو تو الفاظ لکھ کر دوبارہ سوال ارسال کردیجیے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ویقع طلا ق کل زوج بالغ عاقل ولو عبداً او مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية".
[فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ: ۲۳۶،مطلب فی الاکراہ،ط:سعید]
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202201440
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن