ایک شخص کی دکان کافی عرصے سے بند ہو پھر وہی شخص اپنی دکان کے باہر ایک ٹھیلے والے سے یہ طے کرکے کہ آپ میری بند دکان کے باہر کھڑے ہوں تو میں آپ سے کرائےکی مد میں 6000 روپے لوں گا ۔تو کیا اس طرح اجرت کمانا حلال ہوگا؟ نیز اس جگہ کی ملکیت پر کافی تنازع چل رہا ہے کیوں کہ یہ جگہ ایک بھائی نے خریدی تھی لیکن وراثت ملنے کے بعد یہ جگہ دوسرے بھائی کی ملکیت میں چلی گئی مگر دکان کی چابی ابھی اس بھائی کے بچوں کے پاس ہے جس نے یہ زمین خرید تھی۔
شرح المجلہ میں ہے:
"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية 1 /51 ، مادۃ 97 ط:رشدیه)
فتاوی شامی میں ہے :
"وطريق العامة ما لايحصى قومه أو ما تركه للمرور، قوم بنوا دورا في أرض غير مملوكة فهي باقية على ملك العامة، وهذا مختار شيخ الإسلام، والأول مختار الإمام الحلواني، كما في العمادي، قهستاني... (قوله:فإن ضر لم يحل ) كان عليه أن يقول: فإن ضر أو منع لم يحل ا هـ وفي القهستاني: ويحل له الانتفاع بها وإن منع عنه، كما في الكرماني، وقال الطحاوي: إنه لو منع عنه لايباح له الإحداث ويأثم بالانتفاع والترك كما في الذخيرة".
(ج:6،ص:592،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100496
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن