بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ مستقل طور پر بچوں کی پیدائش کے سلسلہ کو ختم کرنے کا حکم


سوال

سوال:  میری چھوٹی بہن کو دوران حمل خون کی بہت شدید کمی ہو جاتی ہے جسکی وجہ پچھلی تین پریگننسی میں سے دو مس کیرج ہوگئے اور زندگی موت کے درمیان کا مسئلہ ہوگیا اب چوتھی بار پھر دوران حمل خون کی بہت زیادہ کمی ہو گئی ہے اس وقت بھی اسپتال میں ہے خون کی بوتلیں لگ رہی ہیں لیکن خون کی کمی پوری نہیں ہورہی کیا اس صورت میں ممکن ہے کہ اسکے شوہر اور اسکی مرضی سے بچوں کی پیدائش کا سلسلہ مستقل بند کروا سکتے ہیں اسکی پہلے بھی دو بیٹیاں ہیں پچھلی بار جب مس کیرج ہوا تھا اس وقت بھی ڈاکٹر نے کہا تھا کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہوئی ہو اس مسئلے کا شرعی حل بتادیں۔

جواب

بلاعذر ضبطِ تولید اسلام میں منع ہے، اور عذر میں بھی کوئی ایسی صورت اپنانا قطعاً حرام ہے جس سے قوتِ تولید بالکلیہ ختم ہوجائے،  مثلاً رحم (بچہ دانی) نکال دینا یا حتمی نس بندی کرادینا وغیرہ۔ نیز طویل عرصے کے لیے پیدائش کا سلسلہ روکنے کے ذرائع اختیار کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔
ہاں کسی واقعی عذر، بیماری، شدید کم زوری یا دوسرے بچے کو خطرہ جیسی صورتوں میں ضرورت کی وجہ سے  ایسی مانعِ  حمل تدبیروں کو اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں، اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں۔

چناں چہ مذکورہ خاتون کے لیے دائمی طور پر  بچہ دانی بند کروانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر آئندہ ولادت کی وجہ سے اپنی جان یا صحت کو خطرہ ہو تو ایسی وقتی طور پر بچہ دانی کو بند کرنے کی یا  احتیاطی تدابیر اختیار کرنا کہ حمل ہی نہ ٹھہرے، جائز ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے:

" فإن الاختصاء في الآدمي حرام مطلقا".

( باب ما يكره من التبتل والخصاء ، ج: 20، صفحہ:72، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"العزل ليس بمكروه برضا امرأته الحرة".

(ج: 1، صفحہ: 335، ط: دار الفکر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے: 

"(ويعزل عن الحرة بإذنها) .......[تنبيه] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه ينبغي أن يكون حراما بغير إذن الزوج قياسا على عزله بغير إذنها".

(کتاب النکاح، 3، صفحہ: 175 176، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں