بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالٹی میں نل کھلا چھوڑنے کی صورت میں کپڑوں کی پاکی کا حکم


سوال

پانی کا ٹیپ (نلكا )چالو کیا جائے اور بالٹی میں پانی بھرتے بھرتے پانی اچھلتے چلے آرہا ہے، اچھل کر پانی باہر آتا رہتا ہے،ٹیپ سے پانی آنا جاری ہے، اب اس بالٹی میں ناپاک کپڑے دھونا، کیا جاری  پانی کے  حکم میں شمار ہوگا؟ یا تین بار الگ الگ پانی بالٹی میں بھرکر کے کپڑے پاک کرنے ہوں گے؟ 

جواب

 واضح رہے کہ اگر  کپڑے ناپاک ہوں یا پاک اور ناپاک کپڑے   دونوں مخلوط ہوں  تو  انہیں پاک کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ پاک پانی سے دھویا جائے، اور ہر مرتبہ نچوڑا بھی جائے، اور ہر مرتبہ اس میں صاف اور پاک پانی استعمال ہوتاہو تو اس صورت میں وہ کپڑے پاک ہوجائیں گے۔

 صورتِ مسئولہ میں بالٹی میں نلکا کھلا چھوڑ نا یہاں تک کہ بالٹی بھرنے کے بعد پانی   بالٹی سے باہر  بہنے لگ جائے، تو  یہ جاری پانی کے حکم میں ہوجائے گا اور ایسی  بالٹی میں پاک  کپڑے دھونے کی صورت میں ہر مرتبہ   کپڑے کے لیے الگ پانی بھرنے کی ضرورت نہیں ،اور اگر کپڑے ناپاک ہیں یاناپاک اور پاک دونوں مخلوط ہیں  تو ایسی صورت میں  كپڑو  ں كو  بالٹی   میں تین مرتبہ بِگھولینے کے بعد ہر بار نچوڑ لیاجائے تو اس سے یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے بشرطیکہ پانی میں نجاست کے اثرات ظاہر نہ ہوں ،اگر ناپاک کپڑے ڈالنے سے ناپاکی کا اثر پانی میں ظاہر ہوجائے تو جب تک وہ اثرات زائل نہ ہوں وہ پانی ناپاک ہوگا ؛اس لیے بہتر یہ ہے کہ  جب ایک بار ایسی  بالٹی میں جمع شدہ پانی کے اندر یہ (ناپاک  يا مخلوط ) کپڑے ڈال کر نکال دیے گئے تو اب اس  بالٹی  کا پانی  دوسری بار کپڑوں کی صفائی کے لیے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ اس پانی کو گراکر مزید صاف پانی  بالٹی  میں بھرلياجائے  اور  پھراِس پانی میں مزید کپڑے ڈال کر نکالے جائیں ، اس لیے کہ  ایسی  بالٹی  کا پانی اگرچہ جاری پانی کے حکم میں ہے، لیکن  عموماًبالٹی کا حجم  اتنا بڑا نہیں ہوتا  کہ جس میں ناپاکی والی چیز دھونے کے بعد غالب گمان میں  نجاست  کااثر باقی نہ رہتاہو۔

فتاوٰ ی شامی میں ہے:

"ثم المختار طهارة المتنجس بمجرد جريانه وكذا البئر وحوض الحمام.

(قوله: بمجرد جريانه) أي بأن يدخل من جانب ويخرج من آخر حال دخوله وإن قل الخارج بحر. قال ابن الشحنة: لأنه صار جاريا حقيقة، وبخروج بعضه رفع الشك في بقاء النجاسة فلا تبقى مع الشك".

(با ب المیاہ،ج:1،ص:195،ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لايقطر ... وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.... أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق".

(باب المیاہ ،ج:1،ص:331،ط:سعید)

وفيه أيضا:

"والعرف الآن أنه متى كان الماء داخلا من جانب وخارجا من جانب آخر ‌يسمى ‌جاريا وإن قل الداخل".

( الدرالمختار  مع  رد المحتار،ج:1،ص:187،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں