بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالٹی میں دھلے ہوئے کپڑے ڈال کر نکالے تو پانی کا کیا حکم ہے؟ ناپاک کپڑوں میں ادا کی گئی نماز کا حکم


سوال

1- جب کسی گھر میں واشنگ مشین میں 3،4 کپڑے دھونے کے بعد ان کو تین بالٹیوں میں سلسلہ وار بگھو لینے کے بعد نچوڑ لیے تو اب ان بالٹیوں کے پانی کاکیا حکم ہوگا ؟ اور اس کے بعد پھر   تین، چارکپڑے دھونے کے بعد ان بالٹیوں کے پانی سے صاف کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر صاف نہیں ہوسکتےہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟  اور اگر صاف ہوسکتےہیں تو پھر اس کی کیا وجہ ہے؟  اور بالٹیوں میں کون سی  بالٹی کا کیا حکم ہے؟

2.  اگر ایک آدمی نے دس سال یا گیارہ سال ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھی ہو تو اس پران  نمازوں کی قضا ہے یا نہیں؟

جواب

1. واضح رہے کہ اگر  کپڑے ناپاک ہوں یا پاک اور ناپاک کپڑے   دونوں مخلوط ہوں  تو  انہیں پاک کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ پاک پانی سے دھویا جائے، اور ہر مرتبہ نچوڑا بھی جائے، اور ہر مرتبہ اس میں صاف اور پاک پانی استعمال ہوتاہو تو اس صورت میں وہ کپڑے پاک ہوجائیں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں واشنگ مشین میں ایسے کپڑے دھولینے کے بعد تین الگ بالٹیوں میں صاف پانی میں ایسے کپڑوں کو بگھولینے کے بعد ہر بار نچوڑ لیاجائے تو اس سے یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، البتہ جب ایک بار بالٹیوں میں جمع شدہ پانی کے اندر یہ (ناپاک) کپڑے ڈال کر نکال دیے گیے تو اب ان بالٹیوں کا پانی دوبارہ دوسری بار کپڑوں کی صفائی کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس پانی کو گراکر مزید صاف پانی ان بالٹیوں میں بھراجائے گا اور اس پانی میں مزید کپڑے ڈال کر نکالے جائیں گے، اس لیے کہ بالٹی کا پانی قلیل ہے، اور قلیل پانی میں اگر نجاست مل جائے تو وہ پانی ناپاک ہوجاتاہے، لہٰذا جب بالٹی میں ناپاک کپڑے ڈال کر نکال لیے گئے تو اس میں موجود پانی ناپاک ہوگیا۔

مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں :
واشنگ مشین میں دھلے ہوئے کپڑوں کو پاک کرنے کا طریقہ

2.نماز کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نمازی کے کپڑے پاک ہوں، اگر کپڑے ناپاک ہوں  چاہےمکمل ناپاک ہوں یا اتنی مقدار میں نجاست لگی ہوئی ہو جس کے ساتھ  نماز کی ادائیگی درست نہیں ہوتی تو اس صورت میں ان کپڑوں میں نمازادا کرنے سے نماز ادا نہیں ہوگی، بلکہ ان کپڑوں کو تبدیل کرکے یا نجاست کو دھوکر کپڑے پاک کرکے نماز پڑھنا لازم ہے۔

لہذا ناپاک کپڑوں میں ادا کی گئی نمازوں کا اعادہ کرنا لازم ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح   میں ہے :

"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة.یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة". (ص: 161)

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.

... أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: "وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق". ( (1/ 331،ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے:
" وأما طهارة ثوبه فلقوله تعالى { وثيابك فطهر } المدثر 4 فإن الأظهر أن المراد ثيابك الملبوسة وأن معناه طهرها من النجاسة  وقد قيل في الآية غير هذا لكن الأرجح ما ذكرناه وهو قول الفقهاء وهو الصحيح كما ذكره النووي في شرح المهذب ولعموم الحديثين السابقين  وإذا وجب التطهير لما ذكرناه في الثوب وجب في المكان والبدن بالأولى لأنهما ألزم للمصلي منه لتصور انفصاله بخلافهما  وأراد بالخبث القدر المانع الذي قدمه في باب الأنجاس فلا يرد عليه الإطلاق  وأشار باشتراط طهارة الثوب إلى أنه لو حمل نجاسة مانعة فإن صلاته باطلة". (باب شروط الصلاة، 1/281، ط:دارالمعرفة بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :
"النجاسة إن كانت غليظةً وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفةً فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش .كذا في المضمرات "۔(الفتاوى الهندية -الفصل الاول في الطهارة و سترالعورة، 2 / 341، ط:بیروت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں