بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں میں سائڈ کی مانگ نکالنا


سوال

کیا بالوں  میں سائڈ  کی مانگ نکالنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

بالوں سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ  سر کے بیچ سے مانگ نکالیں یا پورے سر کے بال مکمل طور پر پیچھے کی طرف لے جائے،   دائیں یابائیں جانب سے  ٹیڑھی مانگ نکالنا جیساکہ آج کل رواج بن چکا ہے، یہ طریقہ  غیروں کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہے۔

شہید اسلام مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’ٹیڑھی مانگ نکالنا اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، مسلمانوں میں اس کا رواج گم راہ قوموں کی تقلید سے ہوا ہے، اس لیے یہ واجب الترک ہے‘‘۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل)

سنن ابی داؤد میں ہے :

"عن ابن عباس ، قال : كان أهل الكتاب - يعني - يسدلون أشعارهم، وكان المشركون يفرقون رءوسهم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبه موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر به، فسدل رسول الله صلى الله عليه وسلم ناصيته ، ثم فرق بعد".

مشکاة المصابیح، (ص:۳۸۱، ط: قدیمي):

’’عن عائشة قالت: إذا فرقت لرسول الله صلی الله علیه وسلم رأسه صدعت فرقه عن یافوخه وأرسلت ناصیته بین عینیه‘‘. رواه أبوداؤد‘‘.

وفي الهامش:

’’قوله: أرسلت ناصیته بین عینیه‘‘: أي جعلت رأس فرقه محاذیاً لما بین عینیه بحیث یکون نصف شعر ناصیته من جانب یمین ذلك الفرق والنصف الآخر من جانب یسار ذلك الفرق‘‘. طیبي‘‘.

فتح الباری میں ہے:

"(قوله: باب الفرق) بفتح الفاء وسكون الراء بعدها قاف: أي فرق شعر الرأس، وهو قسمته في المفرق: وهو وسط الرأس، يقال: فرق شعره فرقاً ـ بالسكون ـ ، وأصله من الفرق بين الشيئين، والمفرق مكان انقسام الشعر من الجبين إلى دارة وسط الرأس". (10/361)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں