بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جوانی میں بالوں کو سیاہ کرنا


سوال

کیا چالیس سال سے پہلے بال کالے کرنا جائز ہے؟

جواب

مرد  کے لیے سر اور داڑھی کے بالوں میں اور خواتین کے لیے سر کے بالوں میں سیاہ رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب لگانا جائزہے۔خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناگناہ ہے، احادیث مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، چناں چہ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:''حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہ ہوگی''۔

صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے ، اس کے علاوہ حالات میں خالص سیاہ خضاب لگانا جائزنہیں ہے۔سیاہ رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ (مثلاً: ڈارک براؤن ،سرخ ، یاسیاہی مائل رنگ)کاخضاب لگاسکتے ہیں۔

"عن جابر قال: أتي النبي ﷺ بأبي قحافة یوم فتح مکة ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً، فقال النبي ﷺ: غیروا هذا بشيء، و اجتنبوا السواد". (الصحيح لمسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب خضاب الشیب بصفرة أو حمرة وتحریمه بالسواد، النسخة الهندیة ۲/ ۱۹۹، بیت الأفکار رقم: ۲۱۰۲)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  فتحِ مکہ کے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد "ابوقحافہ"  رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے گئے، ان کے سر اور داڑھی کا بال بالکل سفید ہوچکے تھے، نبی ﷺ نے فرمایا: اس (سفید رنگ) کو کسی خضاب سے بدل (کر رنگ) دو، لیکن کالے رنگ سے اجتناب کیجیو!

"والأمر للوجوب، وترك الواجب یوجب الوعید. وروی أبو داؤد، والنسائي عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال:« یکون قوم في آخر الزمان یخضبون بهذا السواد کحواصل الحمام لایریحون رائحة الجنة»".(سنن النسائي، کتاب الزینة من السنن، النهي عن الخضاب بالسواد، النسخة الهندیة ۲/ ۲۳۶، دارالسلام رقم: ۵۰۷۸)

ترجمہ: مذکورہ حدیث (صحیح مسلم کی روایت میں) رسول اللہ ﷺ کا حکم وجوب کے لیے ہے، اور واجب کو چھوڑنا وعید کا سبب ہوتاہے؛ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس (بال سیاہ کرنے) پر وعید بھی بیان فرمائی ہے، چناں چہ ابوداؤد اور نسائی رحمہما اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو سیاہ خضاب استعمال کریں گے جیسے کبوتر کے پوٹے، وہ (لوگ) جنت کی خوش بو بھی نہیں سونگھ سکیں گے۔

"وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ. ومن فعل ذلك لیزید نفسه للنساء أو لحبب نفسه إلیهن فذلك مکروه، و علیه عامة المشائخ. وبعضهم جوز ذلك من غیر کراهة". (الفتاوى الهندية ۵/۳۵۹)

امداد الاحکام میں ہے:

’’سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں ہے:

سوال:۔ قابلِ گزارش یہ ہے کہ ایک عالم صاحب نے ایک حدیث لکھ کر روانہ فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے وہ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے اور ان کو جنت کی خوشبو نصیب نہ ہوگی،  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ خضاب لگانا بالکل مطابق گناہ شرک ہے،کیوں کہ جنت مشرک کے لیے حرام ہے ، اب رہا یہ کہ کتاب در مختار میں ۲۳۲ باب الخضاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہ سیاہ خضاب زینت کے لیے لگانا جائز ہے۔ علاوہ اس کے بعض لوگوں کے ہاں مکروہ لکھا ہے اور بعض کے ہاں مطلق مکروہ نہیں۔

اکثر علماء سے سیاہ خضاب لگانے والے کی نسبت دریافت کیا وہ فرماتے ہیں کہ ایسی حدیث کوئی نظر سے نہیں گزری۔ اور اگر ہے بھی تو وہ ضعیف حدیث ہے؛ اس لیے حضرت والا کے پاس یہ عریضہ روانہ کرکے جواب کا امید وار ہوں۔ سوال صرف سیاہ خضاب کے بارے میں ہے۔

الجواب:

أخرج النسائي في سننه (ص؍۲۷۷، ج؍۱) أخبرنا عبدالرحمن بن عبدالله الجلي عن عبدالله وهو ابن عمرو عن عبدالکریم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رفعه أنه قال: قوم یخضبون بهذا السواد آخرالزمان کحواصل الحمام لایريحون رائحة الجنة اهـ

و قد أخرج بعده حدیث أبي قحافة أنه صلی اللّٰه علیه وسلم قال فیه: غیّروا هذا بشيءٍ وجنبوه السواد، رواه الجماعة إلاَّ البخاري والترمذي". (نیل ج؍۱،ص؍۱۱۴) وهو حدیث صحیح.

پس یہ حدیث، توضیح ہے کہ سیاہ خضاب سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض لوگ آخر زمانہ میں سیاہ خضاب لگائیں گے ان کو جنت کی خوشبو نہ پہنچے گی اور فتویٰ اسی پر ہے کہ سیاہ خضاب جائز نہیں، مگر یہ کہ جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے لگانا جائز ہے۔

قال في العالمگیریة: أمّا الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ، و من فعل ذلك لیزین نفسه للنساء و لیحبب نفسه إلیهنّ مکروه (أي کراهة التحریم؛ للإطلاق)، وعلیه عامة المشائخ". (ج؍۶،ص؍۲۳۸)

اور امام ابویوسف ؒ سے اس میں جو رخصت مروی ہے۔ جیسا کہ عالمگیری وشامی میں مذکور ہے۔ وہ روایت ضعیف ہے یا مؤول ہے اس خاص صورت کے ساتھ  جب کہ کسی کے بال بوجہ مرض قبل ازوقت سپید ہوجائیں۔ حررہ الاحقر ظفراحمد عفا اللہ عنہ ۲۷؍ربیع الثانی ۴۶ ؁ھ ( کتاب اللباس و الزینہ، 4 / 346، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں