بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کو رنگنے کا حکم


سوال

میں تقریبا سات آٹھ ماہ سے موٹے بال رکھ رہا ہوں ،ماشاءاللہ اب میرے بال بہت لمبے ہوچکے ہیں ؟پوچھنا یہ کہ اب میں بالوں پر رنگ لگانا چاہ رہا ہوں حالانکہ اس میں میری کوئی مجبوری بھی نہیں تو کیا میں رنگ لگا سکتا ہوں ؟اگر لگا سکتا ہوں تو کس کس قسم کا رنگ لگا سکتا ہوں ؟واضح رہے کہ میرے بال سفید نہیں بلکہ سیاہ ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائل کے بال سیاہ ہیں تو اب انہیں رنگنے  کی حاجت نہیں ، اس صورت میں ظاہر ہے کہ بال رنگنے سے مقصود دکھلاوا اور فیشن ہی ہے، اس لیے بطور فیشن اور دکھلاوا کے بال رنگنا درست نہیں ہے۔البتہ مردوں کے  لیے سر یا داڑھی کے بالوں کو سفید ہوجانے کی صورت میں  سرخ  مہندی وغیرہ سے رنگنا مسنون  (سنت سے ثابت) ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"اعلم بأن الزينة نوعان: نوع يرجع إلى البدن، ونوع يرجع إلى غيره، نبدأ بالذي يرجع إلى البدن، فنقول اتفق المشايخ أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة، وأنه من سير المسلمين وعلاماتهم، والأصل فيه قوله عليه السلام: «غيروا الشيب ولا تشبهوا باليهود» وقال الراوي: رأيت أبا بكر على منبر رسول الله عليه السلام ولحيته كأنها صرام عرفج، والعرفج اسم لبنت في البادية هي أشد حمرة من النار.وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبنحوه ورد الأثر عن عمر رضي الله عنه، وبعضهم جوزوا ذلك من غير كراهية، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها، هذه الجملة من شرح السير الكبير."

( كتاب الاستحسان و الكراهية،  الفصل الحادی والعشرون في الزينة، واتخاذ الخادم للخدمة،ج:۵،ص:۲۷۷، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ."

( كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة، ج:۵،ص:۳۵۹، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں