کیا کنگھی سے ٹوٹے ہوئے بالوں کو جلا سکتے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں ٹوٹے ہوئے بال انسانی اعضاء کاحصہ ہے اس وجہ سے ایسے بالوں کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ اس کو دفن کرنا یا دریا برد کردینا چاہیے، یا ایسی جگہ مٹی میں ڈال دیں جہاں بے توقیری نہ ہو۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال (9450): انسان کے ناخن اور بال وغیرہ کو جلانا جائز ہے یا نہیں، اگر جائز نہیں تو شہری عورتوں کے جو بال کنگھی سے نکلتے ہیں ان کو مکانات پختہ ہونے کی وجہ سے دفن نہیں کرسکتیں، ان کے لئے کیا صورت ہوگی؟
الجواب حامداومصلیاً: بال اورناخن کو جلانا جائز نہیں، ایسی عورتیں جو دفن نہیں کرسکتیں وہ کسی کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر کہیں ڈال دیں، لیکن اس کو ٹکرے ٹکرے کردیں، فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
حررہ العبدمحمود گنگوہی عفی اللہ عنہ، معینِ مفتی مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور۔"
(باب خصال الفطرۃ، الفصل الثالث فی تقلیم الاظفار، عنوان: ناخن اور بالوں کو جلانے کا حکم، ج:19، ص:452، ط:ادارۃ الفاروق)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح
"وفي الخانية ينبغي أن يدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره وإن رماه فلا بأس وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل لأن ذلك يورث داء وروي أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر والظفر وقال لا تتغلب به سحرة بني آدم اهـ ولأنهما من أجزاء الآدمي فتحترم وروى الترمذي عن عائشة رضي الله عنها كان صلى الله عليه وسلم أمر بدفن سبعة أشياء من الإنسان الشعر والظفر والحيضة والسن والقلفة والمسحة اهـ والحيضة بكسر الحاء المهملة خرقة الحيض والجمع محايض كذا في الصحاح ولعل المسحة الخرقة التي يمسح بها ما خرج من الإنسان من نحو دم وأستغفر الله العظيم والله سبحانه وتعالى أعلم".
(کتاب الصلوۃ، باب الجمعۃ، ص:527، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100071
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن