بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کی پیوندکاری کی وجہ سے اشارے سے نماز پڑھنے اور پٹی پر مسح کا حکم


سوال

میں نے  بال کا ٹرانسپلانٹ کیا ہے اور ڈاکٹر نے بتایا2 دن تک اشارے سے نماز پڑھنی ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟

دوسرا سوال  یہ ہے کہ میرے سر پر زخم ہے  ٹرانسپلانٹ کے بعد اور سر پر پٹی بندھی ہوئی ہے، تو میں وضو میں سر کا مسح کیسے کروں؟ اور ماتھے پر بھی پٹی بندھی ہوئی ہے تو وضو میں منہ کیسے دھوؤں؟

جواب

(۱)اگر بالوں کی اس پیوند کاری کی بناء پر آپ رکوع و  سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہیں، یا رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی صورت میں زخم کے بگڑنے یا زخم کے درست ہونے میں تاخیر ہونے کا اندیشہ ہو تو  ان صورتوں میں  آپ رکوع وسجدہ کرنے کے بجائے رکوع و سجدے کے اشارے کے ساتھ نماز اداکرسکتے ہیں۔

(۲)اگر پورے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہو کہ بال بالکل بھی ظاہر نہ ہوں یا سر کے چوتھائی حصہ سے بھی کم حصہ ظاہر ہو پٹی کا کھولنا مضر ہو یا کھولنا اور دوبارہ باندھنا شدید مشقت کا باعث ہو تو  اس صورت میں آپ پٹی پر مسح کرلیں بشرطیکہ پٹی پر مسح کرنا نقصان دہ نہ ہو، اگر پٹی پر مسح کرنا نقصان دہ ہو تو مسح کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ لہٰذا ایسی صورت میں پٹی پر بھی مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

لیکن اگر سر کا چوتھائی حصہ کھلا ہوا ہو اور اس حصہ پر مسح کرنا مضر نہ ہو تو سر کے اس کھلے ہوئے چوتھائی حصے پر مسح کرنا لازم ہوگا،البتہ اگر سر کے کھلے ہوئے چوتھائی حصہ پر مسح کرنا مضر ہو تو پھر پٹی پر ہی مسح کرلینا چاہیے۔ 

 اگر ماتھے پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور پٹی کا کھولنا مضر ہو یا کھولنا اور دوبارہ باندھنا شدید مشقت کا باعث ہو تو وضو میں چہرے کے باقی حصے کو دھولیں اور ماتھے پر بندھی پٹی پر مسح کرلیں ، بشرطیکہ پٹی پر مسح کرنا نقصان دہ نہ ہو، اگر پٹی پر مسح کرنا نقصان دہ ہو تو مسح کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ لہٰذا ایسی صورت میں پٹی پر بھی مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔یہی حکم غسل کا بھی ہے۔

نوٹ:یہاں ایک مسئلہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سر پر مصنوعی بال لگانے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال  کسی اور انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے، اور انسانی بال لگوانے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔اور  اگر مصنوعی بال  کسی اور انسان یا خنزیر  کے نہ ہوں بلکہ  اپنے بال سر کے ایک حصے سے نکال کر بذریعہ سرجری  دوسرے حصے میں لگائے جائیں تو ایسا کرنا جائز ہے، تاہم اگر سرجری میں جسم کاٹنے /چیر نے کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ بال لگوانا ایسی ضرورت نہیں ہے جس کے لیے آپریشن اور جسم کی کاٹ پیٹ کی مشقت برداشت کی جائے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 60):

"فلايصح مسح أعلى الذوائب المشدودة على الرأس".

قوله: "المشدودة على الرأس" أي التي أديرت ملفوفةً على الرأس بحيث لو أرخاها لكانت مسترسلةً، أما لو كان تحته رأس فلا شك في الجواز".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)(1/ 280):
"(ويجوز) أي يصح مسحها (ولو شدت بلا وضوء) وغسل دفعا للحرج (ويترك) المسح كالغسل (إن ضر وإلا لا) يترك (وهو) أي مسحها (مشروط بالعجز عن مسح) نفس الموضع (فإن قدر عليه فلا مسح) عليها. والحاصل لزوم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحه، فإن ضر مسحها، فإن ضر سقط أصلاً.
(ويمسح) نحو (مفتصد وجريح على كل عصابة) مع فرجتها في الأصح (إن ضره) الماء (أو حلها) ومنه أن لا يمكنه ربطها بنفسه ولا يجد من يربطها.(قوله: مع فرجتها في الأصح) أي الموضع الذي لم تستره العصابة بين العصابة فلا يجب غسله، خلافا لما في الخلاصة، بل يكفيه المسح كما صححه في الذخيرة وغيرها إذ لو غسل ربما تبتل جميع العصابة وتنفذ البلة إلى موضع الجرح، وهذا من الحسن بمكان نهر (قوله إن ضره الماء) أي الغسل به أو المسح على المحل ط (قوله: أو أحلها) أي ولو كان بعد البرء بأن التصقت بالمحل بحيث يعسر نزعها ط، لكن حينئذ يمسح على الملتصق ويغسل ما قدر على غسله من الجوانب كما مر؛ ثم المسألة رباعية كما أشار إليه في الخزائن؛ لأنه إن ضره الحل يمسح، سواء ضره أيضا المسح على ما تحتها أو لا؛ وإن لم يضره الحل، فإما أن لايضره المسح أيضا فيحلها ويغسل ما لايضره ويمسح ما يضره، وإما أن يضره المسح فيحلها ويغسل كذلك ثم يمسح الجرح على العصابة إذ الثابت بالضرورة يتقدر بقدرها". 

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عمر  أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة". ( متفق علیه ، المشکاة : ٣٨١ )
آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر ( بھی لعنت فرمائی )۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372)

"وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر. (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً. والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها. والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة، ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق. والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها. والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها، وترقق أطرافها، تفعله العجوز تتشبه بالشواب. والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير، وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولابأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرناً من قرونها بصوف أسود، وإنما الواصلة التي تكون بغياً في شبيهتها، فإذا أسنت وصلتها بالقيادة. والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز". اهـ

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144206201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں