بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوچستان کی کچھ بستیوں سے متعلق جمعہ کا حکم


سوال

بلوچستان میں ایک ضلع خاران ہے جس کے مغربی جانب کچھ بستیاں ہیں، جو شہر خاران سے تقریباً 33 یا 34 کلومیٹر دور ہیں جن کے نام یہ ہیں: گاؤں درکزئی، گاؤں صالح محمد، گاؤں طوتازلی، گاؤں شاہ دوست اور یہ بستیاں ایک دوسرے سے تقریباً ایک، ایک کلو میٹر دور ہیں اور ان چاروں بستیوں میں نماز جمعہ شروع کی گئی ہے، کیا ان چاروں بستیوں میں نماز جمعہ جائز ہے کہ نہیں؟ البتہ گاؤں شاہ دوست میں کبھی پانچ وقت کی جماعت بھی نہیں ہوتی، دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان بستیوں میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے تو کبھی ہم شہری لوگ ان مذکورہ بستیوں میں جاتے ہیں تو وہاں نماز جمعہ پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ جب کہ علماء کرام نے ان بستیوں میں نماز جمعہ کو جائز قرار دیا ہےاور انہوں نے یہ دلیل پیش کی ہے اگر ہم نماز جمعہ شروع نہ کریں تو بریلوی حضرات وہاں کسی اور بستی میں نماز شروع کریں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم نماز جمعہ شروع نہ کریں تو وہاں کے لوگ نماز ہی نہیں پڑھیں گے؟ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے، قصبہ اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا قصبہ اور بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے۔       بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی ڈھائی ہزار سے زیادہ  افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی بآسانی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔    اورجس بستی کی آبادی ڈھائی  ہزار افراد سے کم ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر نہ ہوں تو وہاں جمعہ ادا کرنا درست نہیں۔

لہذا صورت مسؤلہ میں مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے اگر مذکورہ بستیوں میں جمعہ کی شرائط پائی جا رہی ہوں یعنی وہ قریہ کبیرہ(بڑاگاؤں) ہو تو ان بستیوں میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز ہے اور اگر ان بستیوں میں نماز جمعہ کی شرائط نہ پائی جارہی ہوں تو ان بستیوں میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز نہیں۔

البتہ اگر وہاں کافی عرصہ سے جمعہ پڑھا جارہا ہو اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں فتنہ و فساد اور انتشار کاخوف ہو تو جمعہ پڑھاجائے،بندنہ کیاجائے، لیکن ایسی کسی جگہ پر جمعہ  کی نئی جماعت قائم نہیں کرنی چاہیے۔

        فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القھستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات". 

(كتاب الصلاة، باب الجمعة۲/ ۱۳۸ط:سعيد)

      امداد الفتاوی میں ہے:

’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں‘‘۔

(امداد الفتاوی۱/ ۴۱۸ط:دارالعلوم)

         کفایت المفتی میں ہے: ’

’اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں‘‘۔

(کتاب الصلاۃ، پانچواں باب۳/ ۱۸۷ط: دارالاشاعت)  

 کفایت المفتی میں ایک دوسرے مقام پرہے:

’’گاؤں میں جمعہ کا صحیح ہونا یا نہ ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے، حنفیہ کے نزدیک جوازِ جمعہ کے لیے مصر ہونا شرط ہے، لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے، تاہم جس مقام میں کہ زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہے وہاں جمعہ کو ترک کرانے میں جو مفاسد ہیں وہ ان مفاسد سے بدرجہا زیادہ سخت ہیں جو سائل نےجمعہ پڑھنے کی صورت میں ذکر کیے ہیں، جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے، نفل کی جماعت یا جہربقرأت نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘‘

(کتاب الصلاۃ،ج:۳/ ۲۳۱)ط:دارالاشاعت

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں