بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں كولمباکرنے اور اس میں پونی باندھنےکاحکم


سوال

1: کیا مرد بالوں کو بڑھا کرپونی  رکھ سکتا ہے؟

2:اورکیا نماز میں بال کھول کر نماز پڑھ سکتا ہے ؟

جواب

1: واضح رہے کہ بالوں کو اس طرح بڑھانے اور اس میں پونی رکھنے سے چوں کہ عورتوں کی مشابہت لازم ہوتی ہے؛لہذا مردکےلیے اس طرح بال رکھنا جائز نہیں ہے،مرد اگر بال رکھنا چاہے تو اس  کے لیے  بال رکھنے کے مسنون تین طریقے ہیں:

 1.کانوں کی لو تک۔  2. کانوں کی لو اور کاندھوں  کے درمیان تک۔  3.کاندھوں تک ۔

لہذا اگر کوئی شخص بال بڑھائے تو اسے ان تین طریقوں میں سے کسی طریقہ کے مطابق بال رکھ  لینے کی اجازت ہے، تاہم پورے سر کے بال برابر رکھنا ضروری ہے، بعض حصے کے بال بڑے رکھنا اور بعض کے چھوٹے کرلینا درست نہیں ہے۔

2: نیزسرپرعمامہ یاٹوپی رکھ کرنمازپڑھنا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی مستقل سنت ہے، حالتِ احرام کے علاوہ کہیں بھی آپ علیہ السلام سےسرکھول کرنماز پڑھنا ثابت نہیں ہے؛لہذا  سستی اور کاہلی کی وجہ سے سرکھول کرنماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے، البتہ اگر کسی معقول عذرکی بناءپرمثلا:''ٹوپی میسرنہ ہووغیرہ''بغیر ٹوپی کے نماز پڑھی تونماز ادا ہو جائے گی،تاہم اسے مستقل عادت بنانادرست نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

''قال النبي صلى الله عليه وسلم:لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال.''

(كتاب للباس،باب الترجل،ج:2،ص:1262،ط:الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت  )

وقال الملاعلی القاری مرشرحہ:

''(وعنه) : أي عن ابن عباس (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: لعن الله) : يحتمل الإخبار والدعاء (‌المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال) : قال النووي: المخنث ضربان، أحدهما: من خلق كذلك ولم يتكلف التخلق بأخلاق النساء وزيهن وكلامهن وحركاتهن، وهذا لا ذم عليه ولا إثم ولا عيب ولا عقوبة لأنه معذور، والثاني من يتكلف أخلاق النساء وحركاتهن وسكناتهن وكلامهن وزيهن، فهذا هو المذموم الذي جاء في الحديث لعنه (رواه البخاري).''

(کتاب اللباس،باب الترجل،ج:7،ص:2819،ط:دارالفکر۔بیروت)

الدرالمختار شرح تنویرالابصارمیں ہے:

''(وصلاته حاسرا) أي كاشفا (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر.''

وفی الردتحتہ:

''(قوله للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمرا مهما في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاونا بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز. مطلب في الخشوع(قوله ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لا يفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك لأن مبنى الصلاة على الخشوع.''

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج:1،ص:641،ط:سعید)

فتاوی تاتارخانیۃ میں میں ہے:

''ويكره أن يصلي وهو عاقص شعره والعقص هو الإحكام والشد، والمراد من المسألة عند بعض المشايخ: أن يجمع شعره على هامته ويشده یصمغ أو غيره ليتلبد، وعند بعضهم: أن يلف ذوائبه حول رأسه كما تفعله النساء في بعض الأوقات ،وعند بعضهم :أن يجمع الشعر كله من قبل القفاء ويمسكه بخيط خرقة كيلا يصيب الأرض إذا سجد."

(کتاب الصلاۃ،فصل:مایکرہ للمصلی ومالایکرہ،ج:1،ص:200،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں