بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کے پاک نا پاک ہونے کا حکم


سوال

1۔  داڑھی وغیرہ کے بال جڑ سے ٹوٹنے کے بعد ایک سفید چیز بال کے کنارے نظر آتی ہے کیا وہ پاک ہے ؟

2۔ اگر چوہا کتاب پر بیٹ یا پیشاب کر دے تو اسے کس طرح پاک کیا جائےگا ؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ بالوں کے سرے پر جو چربی لگی ہوتی ہے ،وہ ناپاک   ہے،اور  اس چربی   کی مقدار  ایک ناخن یا اس سے زیادہ ہوتو  کپڑے وغیرہ کو ناپاک کردے گی،اس سے کم مقدار معاف ہے۔ 

2۔ واضح رہے کہ فقہا ءِکرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے، کہ چوہوں کا پاخانہ  نجس ہے  چنانچہ اگر کپڑوں  وغیرہ پر  چوہوں کا پاخانہ اور پیشاب مقداردرہم سے زیادہ ہوتو یہ کپڑا وغیرہ ناپاک ہو جائے  گا، اس کا ازالہ ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  اگر پیشاب کتاب میں جذب ہوگیا ہو، اور پانی سے پاک کرنے میں اس کتاب کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو  اس کو پاک کرنے کے لیے  اس پر  پیٹرول یا کوئی مائع (لیکوئید) کیمیکل بہا دیں،  ایک مرتبہ بہانے کے بعد جب قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو دوبارہ بہادیں، یوں تین مرتبہ کرنے سے وہ کتاب پاک ہوجائے گی، اور اگر خشک بیٹ ہو تو اس  کو کپڑے وغیرہ سے صاف کرنے سے   کتاب  پاک ہو جائے  گی۔

رد المحتار میں ہے: 

"‌(قوله غير المنتوف) ‌أما ‌المنتوف فنجس بحر، والمراد رءوسه التي فيها الدسومة. أقول: وعليه فما يبقى بين أسنان المشط ينجس الماء القليل إذا بل فيه وقت التسريح، لكن يؤخذ من المسألة الآتية كما قال ط أن ما خرج من الجلد مع الشعر إن لم يبلغ مقدار الظفر لا يفسد الماء تأمل."

(كتاب الطھارة، باب المياه، فرع ما يخرج من دار الحرب كسنجاب إن علم دبغه بطاهر، ج: 1 ص: 207 ط: سعید)

و فیہ أيضاً:

"(يجوز رفع نجاسة حقيقية عن محلها) ولو إناء أو مأكولا علم محلها أو لا (بماء لو مستعملًا) به يفتى (وبكل مائع طاهر قالع) للنجاسة ينعصر بالعصر (كخل وماء ورد) حتى الريق، فتطهر أصبع وثدي تنجس بلحس ثلاث.(قوله: وبكل مائع) أي: سائل، فخرج الجامد كالثلج قبل ذوبه أفاده ط."

 (كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج: 1 ص: 309 ط: سعید)

بدائع  صنائع میں ہے:

"‌وخرء ‌الفأرة ‌نجس؛ ‌لاستحالته ‌إلى ‌خبث ‌ونتن ‌رائحة، واختلفوا في الثوب الذي أصابه بولها حكي عن بعض مشايخ بلخ أنه قال: لو ابتليت به لغسلته فقيل له: من لم يغسله وصلى فيه؟ فقال: لا آمره بالإعادة."

(كتاب الطهارة، فصل في الطهارة الحقيقية، ج: 1 ص: 60 ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں