بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغہ لڑکی کا والدین سے چھپ کر نکاح کرنے کا حکم


سوال

اگر لڑکی نو سال پہلے بالغ ہو گئی ہو اور اتنے عرصے میں اس کے گھر والوں نے اس کی شادی نہیں کی اور نو سال بعد لڑکی نے کسی لڑکے کو پسند کر لیا اور دونوں نے آپس میں زنا کے ڈر سے چوری چھپے نکاح کر لیا،اسلام میں ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بالغ اولاد کی شادی کرانا یہ والدین کی ذمہ داری ہے،اگر اولاد بالغ ہونے کے بعد شادی نہ ہونے کی وجہ سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا گناہ اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی ملتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں والدین کو لڑکی کے شادی کی عمر کو پہنچتے ہی اس کی شادی کرادینی چاہیے تھی،لیکن اگر انہوں نے کسی مصلحت کی بناپر شادی نہیں کرائی تو لڑکی کے لیے نامحرم مرد کے ساتھ عشق و معاشقہ میں پڑ کراپنےدین کا نقصان کرنے کے ساتھ ساتھ،دنیا کا بھی نقصان کرنااور ایسا قدم اٹھانا جس سے والدین کی عزت پر حرف آئے،درست نہیں تھا،تاہم جب والدین نے شادی نہ کرائی اور لڑکی نےفطری تقاضے سے مجبورہوکر غلط کاریوں میں مبتلا ہونے کے ڈرسے کسی لڑکے کے ساتھ  خفیہ نکاح کیا تواگر یہ نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا تھا تو اگرچہ ایسے طریقے سے نکاح کرنے کو معاشرہ میں اچھانہیں سمجھاجاتااورشریعت میں بھی نکاح کو اعلانیہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،لیکن اگر گواہوں کی موجود گی میں مہرشرعی کے ساتھ  ایجاب و قبول ہوا ہو تو نکاح منعقد ہوجائے گا،البتہ اگر لڑکا،لڑکی کا کفؤ نہ ہوتو پھر لڑکی کے والدین کو اعتراض کا حق ہوگااور وہ بچے کی پیدائش سے قبل تک عدالت جاکر نکاح فسخ کراسکتے ہیں۔

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من ‌ولد ‌له ‌ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه.

(فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره."

(ص:٢٠٦٤،ج:٥،كتاب النكاح ،باب الولي في النكاح واستئذان المرأة،ط:دار الفكر،بيروت)

وفيه ايضا:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: فصل ما بين الحلال والحرام الصوت والدف في النكاح.

(الصوت) أي: الذكر والتشهير بين الناس...(والدف) أي: ضربه (في النكاح) فإنه يتم به الإعلان... المراد الترغيب إلى إعلان أمر النكاح بحيث لا يخفى على الأباعد، فالسنة إعلان النكاح بضرب الدف وأصوات الحاضرين بالتهنئة أو النغمة في إنشاد الشعر المباح."

(ص:٢٠٧٣،ج:٥،كتاب النكاح ،باب إعلان النكاح والخطبة والشرط،ط:دار الفكر،بيروت)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلا كان كالأمر أو حالا كالمضارع، كذا في النهر الفائق فإذا قال لها أتزوجك بكذا فقالت قد قبلت يتم النكاح."

(ص:٢٧٠ج:١،کتاب النکاح،الباب الثانی،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى وهو قول أبي يوسف رحمه الله تعالى آخرا وقول محمد رحمه الله تعالى آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الإعتراض...وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم...وسكوت الولي عن المطالبة بالتفريق لا يبطل حقه في الفسخ، وإن طال الزمان حتى تلد، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان أما إذا ولدت منه؛ فليس للأولياء حق الفسخ."

(ص:٢٩٣،ج:١،کتاب النکاح،الباب الخامس في الأكفاء في النكاح،ط:دار الفکر،بیروت)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"‌‌باب الولي...وهي هنا نوعان: ولاية ندب على المكلفة ... (فنفذ نكاح حرة مكلفةبلا) رضا (ولي) ... (وله) أي للولي ... (الإعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.

(قوله ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة بحر وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة (قوله على المكلفة) أي البالغة العاقلة ... (قوله ما لم يسكت حتى تلد) زاد لفظ يسكت للإشارة إلى أن سكوته قبل الولادة لا يكون رضا ... (قوله لئلا يضيع الولد) أي بالتفريق بين أبويه، فإن بقاءهما مجتمعين على تربيته أحفظ له بلا شبهة."

(ص:٥٤-٥٦،ج:٣،کتاب النکاح،باب الولی،ط:ایج ایم سعید)

"الجوهرة النيرة على مختصر القدوري"میں ہے:

"قوله (وإذا تزوجت المرأة من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما) يعني إذا زوجت نفسها فلهم أن يفرقوا بينهما دفعا لضرر العار عن أنفسهم وسواء كان الولي ذا رحم محرم أو لا كابن العم هو المختار كذا في الفتاوى ولا تكون هذه الفرقة إلا عند الحاكم وسكوت الولي عن المطالبة بالتفريق لا يبطل حقه في الفسخ وإن طال الزمان ‌حتى ‌تلد فإذا ولدت منه لم يبق لهم أن يفرقوا كي لا يضيع الولد عمن يربيه."

(ص:١١،ج:٢،کتاب النکاح،ط:المطبعة الخيرية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں