ایک دوست نے لڑکی کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا ہے، لڑکا میڈیکل کالج کا سٹوڈنٹ ہے اورایم بی بی ایس کر رہا ہے۔لڑکی کے خاندان والوں کا اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لڑکی رشتہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔تو کیا ایسی صورت میں لڑکی کو راضی کرنے کے لیے دم و تعویذ کرنا جائز ہے؟
بالغہ لڑکی کو کہیں نکاح کے لیے مجبور کرنا جائز نہیں،البتہ اگر اس کے اولیاء کو یہ رشتہ پسند ہو تو اس کو سمجھا سکتے ہیں، اور اللہ تعالی سے دعا کرسکتے ہیں کہ وہ اس کے دل میں ڈال دے، اس کے لیے لڑکی بھی استخارہ کرے، اور اس کے والدین بھی ۔ دم اور تعویذ اگرچہ جائز کلمات پر مشتمل ہو، اس مقصد کے لیے اس کا سہارا لینا مزاجِ شریعت کے خلاف ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والاستحباب في النکاح، ط: سعید )
(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200609
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن