بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغہ عورت کا نکاح سے انکارکرنے اور زبردستی نکاح کروانے کا حکم


سوال

میں ایک طلاق شدہ لڑکی ہوں، پچھلی ازدواجی زندگی کی تکلیف سے ابھی تک باہر نہیں آئی، مرد کا عورت کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک میرے ذہن سے نہیں نکلتا، میری طلاق کو پانچ مہینے ہو گئے ہے، میں ابھی ذہنی اور جسمانی طور پر دوسرے نکاح کے  لیے تیار نہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں ابھی شادی کےلیے منع کر سکتی ہوں؟ کیا میں ایسا کرنے سے گناہ گار ہوں  گی؟ 

جواب

           واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نےنکاح  کو انتہائی اہمیت کاحامل قراردیاہے، اسلام نے نکاح کےمتعلق  جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے، اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے،انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنےکی اجازت دی ہے، اس لیے احادیث مبارکہ میں نکاح کے بارے میں آپ علیہ السلام کےانتہائی تاکیدی احکامات و ارشادات موجودہیں، حدیث میں ہے کہ تین صحابی رضی اللہ عنہم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے ایک زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور آپ ا کے احوال کے بارے میں معلوم کیا، جب ان کے سامنے آپ کی عبادات کے احوال کو بیان کیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت کو کچھ کم خیال کیا، پھر کہنے لگے: ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، اب تینوں میں سے ایک نے کہا: میں تو اب ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا: میں تو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا، تیسرے نے کہا: میں تو کبھی شادی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو علم ہوا تو آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے ایسی ایسی بات کہی ہے؟ خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا ہوں، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور پھر آپ  نے فرمایا:میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

لہذا اگر سائلہ کے بڑے،  مثلاًوالدین یاخاندان کےدیگر خیرخواہ حضرات کسی  نیک  سیرت،صالح اور  دین پسند شخص سے رشتے کاکوئی مواقع فراہم کریں  تو سائلہ کو اسے قبول کرلینا چاہیے امید ہے کہ اللہ مستقبل کی زندگی میں نکاح باعثِ سکون وراحت بنائے،تاہم سائلہ  چوں کہ عاقلہ ،بالغہ اورسمجھدارہے، لہذا اگر وہ اپنے سابقہ تجربہ  کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فی الوقت  نکاح کرنانہیں چاہتی تو کسی کو اس پر زبردستی نکاح کروانے کا  حق نہیں ہے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا سعيد بن أبي مريم أخبرنا محمد بن جعفر أخبرنا حميد بن الطويل أنه سمع أنس بن مالك، رضي الله عنه، يقول: جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر. قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال أخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا؟ أما والله إني لأخشاكم لله، وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني۔۔۔وفيه: أن النكاح من سنة النبي صلى الله عليه وسلم، وزعم المهلب أنه من سنن الإسلام، وأنه لا رهبانية فيه. وأن من تركه راغبا عن سننه النبي صلى الله عليه وسلم، فهو مذموم مبتدع ومن تركه من أجل أنه أرفق له وأعون على العبادة فلا ملامة عليه."

(کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح،ج:20،ص:65،دار إحياء التراث العربي - بيروت)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا إسمااعيل قال: حدثني مالك عن عبد الرحمان بن القاسم عن أبيه عن عبد الرحمن ومجمع ابني يزيد بن جارية عن خنساء بنت خذام الأنصارية: أن أباها زوجها وهي ثيب فكرهت ذلك، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرد نكاحه. "

(کتاب النکاح،باب اذازوج ابنتہ وھی کارہۃ فنکاحہامردود،ج:20،ص:129،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں